کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 72
ھی زَلیخاء(۴۸۸ /۱۹۱) ٭ زَلیخاء:زاء کے فتحہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ ہی مشہور ہے،ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ تصغیر کی حالت میں زاء کے ضمہ کے ساتھ ہے۔(حاشیۃ الجمل) ہمارے پاس موجودنسخوں میں یہ الف ممدودہ(یعنی الف کے بعد ہمزہ)کے ساتھ ہے،اور بعض مطبوعہ نسخوں میں قصر(یعنی الف کے بعد بلا ہمزہ)کے ساتھ ہے۔ ﴿وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَہَمَّ بِہَا۔۔﴾ وجواب ’’لولا‘‘ لجامعہا(۴۸۸ /۱۹۲) ٭ ’’لولا‘‘کا جواب’’ھم بہا‘‘ ہی ہے،جو لوگ ’’لولا‘‘کے جواب کو مقدم کرنے کے جواز کے قائل ہیں ان کے اعتبار سے’’ھم بہا‘‘ ’’لولا‘‘ کا جواب مقدم ہے،اور جو مقدم کرنے کے قائل نہیں ہیں ان کے اعتبارسے’’ھم بہا‘‘ ’’لولا‘‘کے جواب کے قائم مقام ہے،پس یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت یوسف نے زلیخا کا قصد نہیں کیا کیوں کہ انہوں نے اپنے رب کی نشانی دیکھ لی تھی۔اور وہ نشانی کیا تھی جو آپ نے دیکھا تھا اس کی تعین کسی صحیح سند سے نہیں ہوسکی ہے۔(ص) ﴿فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ۔۔۔إِنْ ہَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْم﴾ وفی الصحیح أنہ أعطي شطر الحسن۔(۴۹۰ /۱۹۲) ٭ مسلم(۱۶۲) ﴿وَمَا أُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ۔۔۔۔إِنَّ رَبِّیْ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾(۴۹۶ /۱۹۴) ٭ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ سب عزیز مصرکی بیوی(زلیخا)ہی کا کلام ہے جو اس نے بادشاہ کے سامنے کہا،حضرت یوسف علیہ السلام اس وقت ان لوگوں کے پاس نہ تھے،بلکہ اس کے بعد بادشاہ نے ان کو بلوایا تھا۔یہی قول زیادہ مشہورہے اورواقعہ کے سیاق وسباق اور کلام کے معانی کے اعتبار سے لائق اور مناسب بھی ہے،علامہ ابن القیم نے بھی درج ذیل دلیلوں سے اس کواسی عورت کے کلام کا حصہ بتایا ہے: