کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 61
﴿لَمْ یَدْخُلُوہَا وَہُمْ یَطْمَعُون﴾ وروی الحاکم عن حذیفۃ۔۔۔۔فقد غفرت لکم(۳۲۵ /۱۳۳) ٭ مستدرک حاکم(۲ /۳۲۰)تلخیص میں ہے کہ یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط پر ہے۔ ﴿أَہَؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمْتُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔ادْخُلُواْ الْجَنَّۃَ لاَ خَوْفٌ﴾ وقریٔ: اُدْخِلوا۔۔۔و دَخَلُوْا۔۔(۳۲۵ /۱۳۳) ٭ حاشیۃ الجمل میں ہے کہ یہ دونوں قراء تیں شاذ ہیں،مصنف اپنی عادت کے مطابق شاذ قراء ت کو(قُریَٔ)کے لفظ سے بیان کرتے ہیں اور قراء ت سبعہ کو(وفي قراء ۃ)کے لفظ سے۔ ﴿أَہَؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمْتُمْ۔۔۔﴾ فجملۃ النفي حال،أي مقولا لہم ذلک۔(۳۲۵ /۱۳۳) ٭ یعنی ان دونوں قراء توں کو پڑھنے کی صورت میں نفی والا جملہ(لاخوف الخ)قول مقدر کی وجہ سے حالت نصب میں ہوگا،اور وہ قول حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا یعنی ’’مقولا لہم لاخوف۔۔۔۔‘‘(سمین) ﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ﴾ استواء یلیق بہ(۳۲۶ /۱۳۴) ٭ استواء معروف ہے۔البتہ اس کی کیفیت مجہول ہے،یہاں یہی مراد ہونا چاہیے،یعنی استواء کی کیفیت کو اللہ کے حوالے کرنا نہ کہ استواء کے معنی کو۔(ص) ﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ﴾ بقدرتہ(۳۲۷ /۱۳۴) ٭ امر اللہ سے مراد اس کا کلام اور اس کا حکم ہے جو قدرت کے علاوہ ہے۔ ﴿وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ نُشْراً﴾(۳۲۷ /۱۳۴) ٭(نُشْرا)نافع،ابن کثیر اور ابو عمرو کی قراء ت ہے۔