کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 52
۔۔وفی قراء ۃ بضم باء(عَبُدَ)وإضافتہ إلی مابعدہ،اسم جمع ل’’عَبْد‘‘ (۲۴۹ /۱۰۳) ٭ یعنی یہ(عَبُد)عَبْد کا اسم جمع ہے،رہا اس کا جمع تو وہ اَفْعُلْ کے وزن پر آئے گا،جیسا کہ دونوں حاشیوں میں ہے،اور اس پر ابن مالک کے اس قول سے استدلال کیا گیا ہے:(لِفَعْل اسما صح عینا اَفعُل) ﴿بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ۔۔۔﴾ ۔۔إذ غایۃ ما یبذلہ السخي من مالہ أن یعطی بیدیہ(۲۴۹ /۱۰۳) ٭ یہ اللہ تعالی کے لیے ’’ید‘‘ کی صفت کا لازمی معنی ہے،لیکن ’’ید‘‘ کی تفسیر میں ملزوم کو چھوڑ کر لازمی معنی کو لینا درست نہیں ہے،بلکہ ’’یدین‘‘ کی صفت اور اس کے لازمی معانی دونوں کو اللہ کے لیے ثابت ماننا واجب ہے،اللہ تعالی کے اسماء،صفات اور احکام صفات پر ایمان رکھنا اہل سنت کے نزدیک مقررہ قواعد میں سے ہے۔(ص) ﴿وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ ’’انصرفوا فقد عصمنی اللہ‘‘ رواہ الحاکم(۲۵۰ /۱۰۴) ٭ مستدرک حاکم:۲ /۳۱۳ تر مذی(۳۰۴۶) ﴿فَرِیْقاً کَذَّبُواْ وَفَرِیْقاً یَقْتُلُونَ﴾ ۔۔والتعبیر بہ دون قتلوا،حکایۃ للحال الماضیۃ،للفاصلۃ۔ (۲۵۱ /۱۰۴) ٭ اسی طرح تمام نسخوں میں(للفاصلۃ - بغیر واو کے)ہے،حالانکہ بہتر یہ ہے کہ ’’ وللفاصلۃ ‘‘ کہا جائے،اسی وجہ سے حاشیۃ الجمل میں کہا ہے کہ :لگتا ہے کہ شارح سے واو عطف چھوٹ گیا ہے،یہ بھی کہا ہے کہ دوسروں کے الفاظ اس طرح ہیں : وللمحافظۃعلی رؤوس الآي۔ ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ عَلَیْْکُمْ أَنفُسَکُمْ۔۔﴾’’ائتمرو ابا لمعروف