کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 45
٭ ایک نسخہ میں(غَطِِّ)ہے۔[1] اور یہ اپنے مابعد(فلا تظہرہا۔۔۔۔)کے موافق ہے۔ سورۃ النساء ﴿وَاتَّقُواْ اللّٰهَ الَّذِیْ تَسّائَ لُونَ بِہِ۔۔۔﴾(۱۶۶ /۶۹) ٭ تسّاء لون(سین کی تشدید کے ساتھ)نافع،ابن کثیر،ابوعمرو اور ابن عامر کی قراء ت ہے۔ ﴿وَآتُواْ الْیَتَامَی أَمْوَالَہُمْ۔۔۔۔﴾ الصغار الأُلیٰ لا أب لہم۔(۱۶۶ /۶۹) ٭ یہ حاشیۃالصاوی سے درست املاء کے ساتھ ایسے ہی(الألی)مرقوم ہے۔یہ ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ ’’الذین‘‘ کی طرح ’’الذي‘‘ کی جمع ہے۔اور ہمارے حاشیۃ(الجمل)میں اصل متن کی طرح ’’الأولی‘‘ واو کے اثبات کے ساتھ ہے،حالانکہ ایسا کہیں منقول نہیں ہے۔عبید بن الابرص نے امرؤالقیس کو مخاطب کرکے کہا تھا: نحن الألی فاجمع جموعک ثم وجہہم إلینا ﴿فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَلْیَقُولُواْ﴾للمیت﴿قَوْلاً سَدِیْدا﴾(۱۶۹ /۷۰) ٭ میت سے مراد قریب المرگ ہے،بعض نسخوں میں(للمیت کے بجائے)لمن حضرتہ الوفاۃ ہے،اور حاشیۃ الجمل میں کسی کی عبارت نقل کرکے’’ للمریض‘‘ لکھا ہے،اور کہا ہے کہ ان سب سے بہتر ’’ولیقولو ا للیتامی۔۔۔۔۔الخ‘‘ ہے۔ ﴿وَاللاَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِن نِّسَآئِکُمْ۔۔۔﴾
[1] ہندستانی نسخہ میں متن میں ’’غَطِّ‘‘ ہی مندرج ہے۔البتہ حاشیہ میں دوسرے نسخہ ’’حُطَّ ‘‘ کا بھی اشارہ موجود ہے۔(م)