کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 26
﴿وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ﴾(۱۹ /۵) ٭ نافع،ابن کثیر،ابو عمرو اور ابن عامر نے(یُکَذِّبُوْنَ)تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔بقیہ قراء نے(یَکْذِبُوْنَ)بغیر تشدید کے پڑھا ہے۔ ﴿اللّٰهُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ﴾ یجازیہم باستہزاء ھم(ان کے استہزا کا ان کو بدلہ دیتا ہے)(۱۹ /۵) ٭ یہ اللہ رب العزت کے فعل کی ایسی تاویل ہے جس کو محققین علماء پسند نہیں کرتے،کیوں کہ اس کا لازمی نتیجہ اللہ کے فعل کی نفی ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ خود اس فعل کو اپنے لیے ثابت کر رہا ہے،اس قسم کے افعال کا اطلاق اس وقت اللہ تعالیٰ کے لیے ممتنع ہوتا جب ان میں نقص اور عیب کا پہلو ہوتا،مگر جب کمال کا پہلو ہوتو اللہ تعالیٰ پر اس کا اطلاق درست ہوگا۔استہزاء کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا کمال کے قبیل سے ہے،کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ کسی کام کو انجام دینے والے کے ساتھ اسی جیسا یا اس سے سخت معاملہ کرسکتا ہے۔(ص) ﴿ثُمَّ اسْتَوَی﴾بعد خلق الأرض۔أی قصد﴿إِلَی السَّمَاء﴾(اللہ نے زمین کو پیدا کرنے کے بعد آسمان کی طرف توجہ کیا)(۲۳ /۷) ٭ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں مجاھد اور ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ: استوی،ای علا وار تفع۔امام طبری نے اسی معنی کو ترجیح دیا ہے،اور دوسری تفسیروں کو ان کے عربی زبان کے مخالف ہونے کی وجہ سے رد کردیا ہے۔ ﴿وَاسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ﴾ حدیث : کان إذاحزبہ أمربادر إلی الصلاۃ(۲۷ /۹) ٭ ابو داود(۱۳۱۹) ﴿وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ۔۔۔﴾ طائفۃ من الیہودوالنصاری(۳۲ /۱۱)