کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 23
کتابوں کے بیچ یہ کتاب ایجاز واختصار کے ساتھ متصف ہے،خود سطور بالا میں امام سیوطی کے بیان کردہ منہج تالیف میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ دکتور محمد حسین ذہبی نے اپنی کتاب ’’التفسیر والمفسرون‘‘ جلد اول صفحہ ۳۳۷ میں ’’کشف الظنون‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’بعض علماء یمن کا بیان ہے کہ انہوں نے تفسیر جلالین کے حجم کا اندازہ کرنے کے لیے قرآن کے حروف اور اس تفسیر کے حروف کو شمار کرنا شروع کیا چنانچہ شروع سے لے کر سورہ مزمل تک قرآن کے حروف اور تفسیر کے حروف برابر برابر رہے،لیکن سورہ مزمل کے بعد یعنی سورہ مدثر سے تفسیر کے حروف قرآن کے حروف سے زائد ہیں،لہذا اس کو بغیر وضوء کے بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔‘‘ ا ھ عقیدہ: یہ بات معلوم ہے کہ اشاعرہ کا عقیدہ کے باب میں اہل سنت والجماعۃ سے واضح اختلاف ہے،اس اختلاف کا ایک محل کتاب وسنت میں وارد اللہ رب العزت کی صفات ہیں،اشاعرہ ان صفات کو ان کے حقیقی معانی پر محمول نہ کرکے ان کی تاویل کرتے ہیں اور ان کو دوسرے بعید معانی پر محمول کرتے ہیں،مثلا رحمت کا معنی احسان،غضب کا معنی انتقام،استوی بمعنی استولی،وغیرہ،جب کہ سلف ان صفات کا وہی معنی بیان کرتے ہیں جو عام اور معروف ہے،البتہ کیفیت بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں،اور اسے اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ تفسیر جلالین کے دونوں مفسرین عقیدۃ ً اشعری تھے،چنانچہ انہوں نے بھی اپنی تفسیر میں صفات کی تاویل کی ہے،شیخ محمد بن عبد الرحمن مغراوی تفسیر جلالین کا تعارف کراتے ہوئے امام سیوطی اور امام محلی کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ وأما فی التفسیر المسمی بالجلالین فھو(أی السیوطی)أشعری کبیر،ما ترک صفۃ الا أوّلھا،وما قلناہ فی السیوطی یقال فی صدیقہ الجلال المحلی فی التأویل،فکلاھما مؤول علی مذھب