کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 15
سلسلے میں بڑی الجھنیں پیدا کردی ہیں،اور اس فن سے ناواقف مدرسین وطلبہ کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اکثر مقامات پر ایک لفظ میں وارد متعدد قراء توں کو ذکر کرنے اور ان کی توجیہ وتفسیر بیان کرنے میں حفص عن عاصم کے علاوہ دوسرے قراء اور راویوں کی قراء ت کو پہلے ذکر کردیتے ہیں۔کتاب کے ہندوستانی ایڈیشن میں مختلف فیہ قراء ت والے الفاظ کی کتابت کہیں تو حفص کی قراء ت کے مطابق ہے تو کہیں اس دوسری قراء ت کے مطابق جسے مصنف نے پہلے بیان کیا ہے۔قاری کو الجھن وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں قراء ت والے لفظ کی کتابت کسی اور قراء ت کے مطابق ہو اور مفسر نے کسی اور قراء ت کو بنیاد بنا کر تفسیر کی ہو۔مثلاً: سورہ بقرہ کی آیت نمبر(۸۵)میں﴿تَظَاہَرُونَ عَلَیْْہِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَان﴾میں لفظ [تظاھرون ]میں دو قراء تیں لکھی ہیں : ایک ظاء کی تخفیف کے ساتھ(تَظَاہَرُوْنَ)اس قراء ت کے قراء میں حفص بھی ہیں۔دوسری قراء ت ظاء کی تشدید کے ساتھ ہے(تَظَّاہَرُوْنَ)مفسر علام نے لفظ تظاھرون کے بعد ان الفاظ میں اپنی بات کہی ہے: ’’فیہ إدغام التاء في الأصل فيالظاء،وفي قراء ۃ بالتخفیف علی حذفھا‘‘ یہ عبارت بصراحت اعلان کررہی ہے کہ اس میں پہلے(تَظَّاہَرُوْنَ)یعنی تشدید والی قراء ت کی توجیہ ذکر کی گئی ہے یعنی اسی قراء ت کو بنیاد مانا گیا ہے،بعد میں تخفیف والی قراء ت کا ذکر اور اس کی توجیہ ہے۔مگر تفسیر جلالین کے ہندوستانی ایڈیشن میں لفظ[ تظاہرون] پر جو اعراب لگایا گیا ہے وہ تخفیف والی قراء ت(جو حفص کی قراء ت ہے)کے اعتبار سے ہے،جب کہ توجیہ پہلے تشدیدوالی قراء ت کی بیان کی گئی ہے۔وقس علی ہذا الأماکن الأخری۔ اس نوعیت کی مزید مثالیں ملاحظہ کریں درج ذیل الفاظ میں وارد قراء توں کے بیان میں: