کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 113
بتحقیق الھمزتین۔۔۔فی المواضع الأربعۃ(۱۰۹۷ /۴۴۷) ٭ چار جگہوں میں سے پہلی تو یہی ہے(یعنی أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَہُ)دوسری(ء أنتم تزرعونہ)تیسری(ء أنتم انزلتموہ من المزن)اور چوتھی (ء أنتم أنشأتم شجرتہا)(حاشیۃ الجمل) ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ﴾ (باسم)زائدۃ(۱۰۹۸ /۴۴۸) ٭(لفظ اسم)زائد نہیں ہے کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں سے منزہ رکھنا ضروری ہے جو اس کے لائق نہیں اسی طرح اس کے اسماء کو بھی انکار،اور تحریف و تعطیل سے منزہ رکھنا ضروری ہے،ایسے ہی جو نام اللہ اور اس کے رسول سے ثابت نہ ہوں ان ناموں سے اسے موسوم کرنے سے بھی اس کو منزہ رکھنا ضروری ہے۔کیونکہ اس کے اسماء میں الحاد کرنے کے قبیل سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد ہے:(وللّٰه الأسماء الحسنی۔۔۔) ﴿لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ۔۔۔۔﴾ الذین طہروا أنفسہم من الأحداث(۱۰۹۸ /۴۴۸) ٭ تفسیر ابن کثیر میں ابن عباس سے مروی ہے کہ﴿لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ﴾میں وہ کتاب مراد ہے جو آسمان میں ہے۔اور عوفی ابن عباس سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ﴿لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ﴾یعنی فرشتے۔اور قتادہ سے مروی ہے کہ﴿لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ﴾اللہ کے پاس اس کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں البتہ دنیا میں اس کو ناپاک مجوسی بھی چھوتا ہے اور گند ا منافق بھی۔ابو العالیہ کہتے ہیں﴿لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ﴾تم نہیں مراد ہو،تم تو گناہ والے لوگ ہو۔ ابن زید کہتے ہیں کہ کفار قریش یہ خیال کرتے تھے کہ قرآن کو شیاطین لے کر اترتے ہیں،تو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ اس قرآن کو تو صرف پاک ہی لوگ چھوتے