کتاب: سعادۃ الدارین ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین - صفحہ 100
ڈوبنا نہیں،کیونکہ دور نزدیک کہیں بھی سورج کا تذکرہ ہی یہاں نہیں ہے نہ اشارۃً نہ صراحتاً۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام فوجی تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے،گھوڑوں کا جائزہ لیا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے پھر ان کو واپس لانے کا حکم دیا وہ واپس ہوئے تو ان کی تکان دور کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ان کو سہلانے لگے جیسا کہ گھوڑے والے گھوڑوں کو دوڑانے کے بعد کیا کرتے ہیں،اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے ان گھوڑوں کو سہلانے کا کام محض اس لیے کیا کہ انہیں ان گھوڑوں سے محبت تھی اور یہ محبت ذکر الٰہی کی وجہ سے تھی۔(ص) ﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمَانَ۔۔۔۔﴾ ۔۔۔۔فلبسہ وجلس علی کرسیہ۔ (۹۳۰ /۳۸۲) ٭ اس تفسیر میں اس محترم نبی(حضرت سلیمان علیہ السلام)کی زبردست توہین ہے اور ساتھ ہی قرآنی ترتیب کو پوری طرح الٹ دیا گیا ہے۔کیونکہ قرآن تو اس بات کو صراحت سے بیان کرر ہا ہے کہ فتنہ پہلے واقع ہوا اس کے بعد حضرت سلیمان نے مغفرت طلب کی اور اللہ تعالیٰ سے ایسی بادشاہت طلب کی جوان کے بعد کسی اور کے لیے مناسب نہ ہو،پھر اللہ تعالیٰ نے ہواؤں اور شیاطین کو ان کے تابع بنا دیا،جب کہ یہ تفسیر اس بات کی صراحت کررہی ہے کہ فتنہ کا وقوع شیاطین کو تابع بنانے کے بعد ہوا،کس قدر یہ تفسیر عجیب وغریب ہے!پھر مفسرین کا آیت میں مذکور فتنہ کی تفسیر کے بارے میں اختلاف ہے،اتنا ضرور ہے کہ حضرت سلیمان کی کرسی پر ایک جسم کا ڈالا جانا بھی اس فتنہ وآزمائش کا ایک حصہ تھا۔مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں فتنہ سے وہی مراد ہے جس کا بیان صحیحین کی حدیث میں ہوا ہے،اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ کہا کہ میں آج کی رات(۱۰۰)بیویوں سے(اور ایک روایت کے مطابق(۷۰)بیویوں سے)ہمبستری کروں گا،ان میں سے ہر ایک بیوی ایسا بچہ جنے گی جواللہ کی راہ میں جہاد کرے گا،فرشتہ نے ان سے کہا کہ’’ اِن شاء اللہ ‘‘ کہہ لیجیے،وہ نہیں کہہ