کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 83
دوسرے پر بازی لے جانے کی فکر میں مگن دکھائی دیتا تھا۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔ ج: اللہ تعالیٰ نے [فِيْ الْخَیْرَاتِ] [بھلائی کے کاموں میں] فرمایا۔ [إِلَی الْخَیْرَاتِ] [بھلائی کے کاموں کی طرف] نہیں فرمایا۔ اس میں حکمت یہ ہے، کہ اُن کی جولان گاہ اور دائرۂ حرکت خیر، بھلائی، نیکی اور نفع والے اعمال ہی میں منحصر تھا۔ کسی ایک نیکی میں ہمہ تن لگ جانے سے پہلے بھی وہ اُسی نیکی میں یا اس جیسی کسی اور خیر میں مگن ہوتے تھے اور اس کے کرنے کے بعد بھی اُن کی توجہ، اہتمام اور دائرہ عمل نیکی کے کاموں ہی میں محدود تھا۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔[1] vi: فرض عبادات کے ساتھ نفلی عبادات کا اہتمام: امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْئٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ۔ وَ مَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ۔ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَ بَصَرَہُ الّذِيْ یُبْصِرُ بِہٖ، وَ یَدَہُ الَّتِيْ یَبْطِشُ بِہَا، وَ رِجْلَہُ الَّتِيْ یَمْشِيْ بِہَا۔ وَ إِنْ سَاَلَنِيْ لَأُعْطِیَنَّہٗ، وَ لَئِنِ اسْتَعَاذَنِيْ لَاُعِیْذَنَّہٗ۔‘‘[2] [’’میرا بندہ کسی ایسی چیز سے میرے قریب نہیں ہوتا، جو مجھے اس پر فرض کردہ باتوں سے زیادہ پیاری ہو۔[3]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۶/۸۳۔ [2] صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب التواضع، جزء من رقم الحدیث ۶۵۰۲، ۱۱/۳۴۰-۳۴۱۔ [3] یعنی بندہ فرائض ادا کرنے سے میری سب سے زیادہ قربت حاصل کرتا ہے۔