کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 82
آیتِ شریفہ کے اس حصے کا مقصود یہ ہے، کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو کچھ حاصل کیا، وہ اُن قابلِ تعریف (تین) خصلتوں کی بنا پر کیا۔[1] پس رزق کے لیے اپنی دعاؤں کو قبول کروانے کی رغبت رکھنے والا ان تین خصلتوں سے خود کو مالا مال کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہے۔ اے رب کریم! ہمیں بھی ایسے خوش نصیب لوگوں میں شامل فرما دیجیے۔ آمِین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ آیتِ شریفہ میں حضرات انبیاء علیہم السلام کے انعامات پانے اور دعاؤں کے قبول کروانے کا پہلا سبب: (إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ) بیان کیا گیا ہے۔ [ترجمہ: بلاشبہ وہ خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی خاطر دوڑ لگاتے رہتے تھے]۔ ذیل میں اس کے متعلق تین باتیں ملاحظہ فرمائیے: ا: اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کی نیکی کے کام کرنے سے متعلق بات کا آغاز [کَانُوْا] سے فرمایا۔ جس سے … وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ… مقصود یہ ہے، کہ ایسے کاموں کا کرنا اُن کے حوالے سے وقتی کیفیت یا حادثاتی بات نہ تھی، بلکہ ایسا کرنا اُن کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن چکا تھا۔[2] ب: نیکی کے کام کرنے کے لیے [یُسَارِعُوْنَ] کا لفظ استعمال فرمایا۔ یہ [سَارَعَ یُسَارِ عُ مُسَارَعَۃً] باب [مُفَاعَلَۃ] سے ہے، جس کے خواص میں سے ایک [مشارکہ] ہے۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے، کہ وہ نیکی اور خیر کی باتوں میں اس قدر اہتمام، توجہ، دھیان اور شوق و ذوق سے جُتے رہتے تھے، کہ اُن میں سے ہر ایک
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۵۸۲؛ و تفسیر البیضاوي ۲/۷۸؛ وتفسیر أبي السعود ۶/۸۳؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۱۷/۱۳۶۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر و التنویر ۱۷/۱۳۶۔