کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 81
[بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں سے بہت نزدیک ہے]۔ اور احسان کرنے والوں سے مراد … جیسا کہ امام ابن قیم نے بیان کیا ہے[1] … احکامِ الٰہیہ کو بجا لانے والے۔ آیتِ شریفہ کا مقصود …وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ… یہ ہے، کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی مانتے ہیں، تو رب ذوالجلال اُن کی مانتے ہوئے، اُن کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرما دیتے ہیں۔ اے رب کریم! ہمیں دونوں باتوں سے مالا مال فرما دیجیے۔ آمِیْن یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔ iv : بھلائی کے کاموں میں آپس میں دوڑ لگاتے رہنا: v: اللہ تعالٰی کے لیے عاجزی کرتے رہنا: سورۃ الأنبیاء میں اللہ تعالیٰ نے سولہ انبیاء علیہم السلام پر اپنے انعامات اور اُن کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمانے کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: {إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًَا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ}[2] [بلاشبہ وہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی خاطر دوڑ لگاتے رہتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے]۔ [إِنَّہُمْ] سے مراد اسی سورت میں اس سے پہلے ذکر کردہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام ہیں۔[3]
[1] ملاحظہ ہو: التفسیر القیم ص ۲۵۸۔ [2] سورۃ الأنبیآء/ جزء من الآیۃ ۹۰۔ [3] ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۵۸۲؛ و بدائع التفسیر ۲/۲۰۱؛ و تفسیر البیضاوي ۲/۷۸؛ و تفسیر أبي السعود ۶/۸۳؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۱۷/۱۳۶۔ و ہ انبیاء: موسیٰ، ہارون، ابراہیم، لوط، اسحاق، یعقوب، نوح، داؤد، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذی الکفل، یونس، زکریا، یحییٰ علیہم السلام ہیں۔