کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 47
آیتِ شریفہ کے حوالے سے چار باتیں: i: [لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا] میں [لَا] نافیہ کے بعد [رِزْقًا] نکرہ کے استعمال سے اُن کے رزق میں سے غیر اللہ کے کسی بھی چیز کے مالک ہونے کی نفی کی گئی ہے۔[1] ii: (فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ) میں معمول سے ہٹ کر [عِنْدَ اللّٰہِ] کو [الرِّزْقَ] سے پہلے لایا گیا ہے، جیسے کہ (إِیَّاکَ نَعْبُدُ) [2] میں [نَعْبُدُ] سے پہلے [إِیَّاکَ] کو، [وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ] [3] میں [نَسْتَعِیْنُ] سے پہلے [إِیَّاکَ] کو اور [رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ] [4] میں [عِنْدَکَ] کو [بَیْتًا] سے پہلے لایا گیا ہے۔ یہ حصر کی سب سے زور دار صورت ہے اور معنیٰ یہ ہو گا، کہ اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرو اور اُن کے سوا کسی اور سے رزق طلب نہ کرو، کیونکہ کوئی اور، کسی بھی چیز کا مالک نہیں۔[5] آیت شریفہ کا یہ جملہ، پہلے جملے [إِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا] [6] کا منطقی نتیجہ ہے، کہ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی، کسی بھی قسم کے رزق کا مالک ہی نہیں، تو اُس سے رزق کیسے مانگا جائے؟ iii: آیتِ شریفہ میں اللہ تعالیٰ ہی سے رزق طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے [اَلرِّزْق] فرمایا۔ [اَلرِّزْق] میں [اَلْ] استغراقیہ ہے۔ مقصود …و اللہ تعالیٰ أعلم… یہ ہے، کہ ربِّ کریم ہی سے ہر نوع و قسم اور ہر مقدار میں رزق طلب کرو، کیونکہ وہ ہی
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۳/۲۰۱؛ تفسیر البحر المحیط ۷/۱۴۱؛ و تفسیر أبي السعود ۷/۳۴؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۲۰/۲۲۵؛ اور اس کتاب کا ص ۲۸۔ [2] سورۃ الفاتحۃ/ جزء من الآیۃ ۵۔ [ترجمہ: ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں]۔ [3] سورۃ الفاتحۃ/ جزء من الآیۃ ۵۔ [ترجمہ: ہم آپ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں]۔ [4] سورۃ التحریم/ جزء من الآیۃ ۱۱۔ [ترجمہ: [اے] میرے رب! میرے لیے اپنے ہی پاس جنت میں گھر بنا دیجیے]۔ [5] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۳/۴۴۹۔ [6] ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے سوا، جن کی تم عبادت کرتے ہو، تمہارے لیے کسی رزق کے مالک نہیں۔