کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 44
ج: جملے میں عام اسلوب سے ہٹ کر [بِکُلِّ شَيْئٍ] کو [عَلِیْمٌ] سے پہلے لانے سے جملے میں حصر ہونے کی وجہ سے حسبِ ذیل معنیٰ حاصل ہوا: [بلاشبہ وہ ہی ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں]۔ اُن کے سوا کوئی اور ایسے نہیں۔ د: [عَلِیْمٌ] میں [فَعِیْلٌ] کے وزن پر ہونے کی وجہ سے [مبالغہ] کا معنیٰ ہے، کہ وہ [خوب جاننے والے ہیں]۔ اس ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے، کہ جب ہر چیز کو خوب جاننے والا، اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں، تو پھر بندوں کے رزق میں فراخی اور تنگ دستی کا اختیار اُن کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں کیونکر ہو سکتا ہے؟ vii: چھٹی آیت سے پہلے والی آیت: {وَ إِذَآ أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْابِہَا وَ إِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ مبِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیْہِمْ إِذَاہُمْ یَقْنَطُوْنَ}[1] میں بیان کردہ دونوں حالتوں میں لوگوں کے طرزِ عمل اور خرابی کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یَقْدِرُ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ} مقصود …و اللہ تعالیٰ أعلم… یہ ہے، کہ مال و دولت اور دیگر نعمتیں اُن کی کسی
[1] سورۃ الروم / الآیۃ ۳۶۔ [ترجمہ: اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، تو وہ اُس کی وجہ سے فخر و تکبر کرتے ہیں اور جب انہیں اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ نااُمید ہو جاتے ہیں]۔