کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 43
بِعِبَادِہٖ] کی بجائے [إِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہ خَبِیْرًا بَصِیْرًا] فرمایا، جس کی بنا پر جملے میں [حصر] کی بنا پر حسبِ ذیل معنیٰ حاصل ہوا: [بلاشبہ وہ ہی ہمیشہ سے اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والے خوب دیکھنے والے ہیں]۔ اُن کے سوا کوئی اورایسا نہیں۔ ہ: [خَبِیْرًا] اور [بَصِیْرًا] دونوں [فَعِیْلٌ] کے وزن پر ہیں، جس میں مبالغہ [یعنی ذکر کردہ وصف اور خوبی کا بہت زیادہ ہونا] ہوتا ہے۔ اس لیے [خَبِیْرًا] کا معنیٰ [پوری خبر رکھنے والے] [بَصِیْرًا] کا معنیٰ: [خوب دیکھنے والے] کے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے، کہ جب ہمیشہ سے بندوں کی پوری خبر رکھنے اور انہیں خوب دیکھنے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں، تو بندوں کے رزق میں وسعت اور تنگی کا اختیار بھی صرف اُن کے ہاتھ میں ہو۔ vi: ساتویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے [رزق کی وسعت اور تنگی کرنے] کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی علّت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: [إِنَّہٗ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْمٌ] [1] [بلاشبہ وہ ہی ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں]۔ آیتِ شریفہ کے اس ٹکڑے میں بیان کردہ حقیقت کی تاکید میں درجِ ذیل چار باتوں سے مزید اضافہ ہوتا ہے: ا: اللہ تعالیٰ نے جملے کی ابتدا لفظ توکید [إِنَّ] سے فرمائی۔ ب: [إِنَّہٗ] میں [ہٗ] [ضمیر الشان] اس بات کی یاددہانی کرواتی ہے، کہ اس کے بعد بیان کی جانے والی بات بہت اہمیت اور شان و عظمت والی ہے۔
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۸/۲۵؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۲۵/۴۹۔