کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 42
معلوم اور متعین ہے۔ {وَ کُلُّ شَيْئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ}[1] [ترجمہ: اور ہر چیز اُن کے ہاں، ایک اندازے سے ہے]۔ {وَ إِنْ مِّنْ شَيْئٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَ مَا نُنَزِّلُہٗٓ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ}[2] [ترجمہ: اور کوئی چیز بھی نہیں، مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں، اور ہم اسے نہیں اتارتے، مگر ایک معلوم اندازے سے]۔ v: چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے [رزق میں کشادگی اور تنگی کا اختیار] اپنے پاس رکھنے کی علّت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: [إِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا] [3] [بلاشبہ وہ ہی ہمیشہ سے اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والے خوب دیکھنے والے ہیں]۔ آیت کے اس ٹکڑے اور اس کی قوت و زور کو سمجھنے کی خاطر درجِ ذیل پانچ باتوں کو پیش نظر رکھنا شاید مفید ہو: ا: اللہ تعالیٰ نے جملے کی ابتدا لفظ توکید [إِنَّ] [یقینا] سے فرمائی۔ ب: (إِنَّہٗ) میں [ہٗ] ضمیر الشان استعمال فرما کر تنبیہ فرمائی، کہ اس کے بعد کی جانے والی بات بہت اہمیت اور شان و عظمت والی ہے۔ ج: لفظ [کَانَ] استعمال فرما کر اس حقیقت کو اجاگر فرمایا، کہ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے بارے میں خَبیرََا بَصِیْرًا] ہونے کی دی گئی خبر، کوئی نئی بات نہیں، بلکہ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں۔ د: جملے میں تقدیم و تاخیر ہے۔ معمول کی ترتیب [إِنَّہٗ کَانَ خَبِیْرًا
[1] سورۃ الرعد/ جزء من الآیۃ ۸۔ [2] سورۃ الحجر / الآیۃ ۲۱۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۵/۶۹؛ تفسیر التحریر و التنویر ۱۵/۸۶۔