کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 41
کس قدر زیادہ ہو گی! iii: اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات: پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی میں اس حقیقت کو [جملہ اسمیہ] کے ساتھ اور دو آیات: دوسری اور ساتویں میں [جملہ فعلیہ] کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ [جملہ اسمیہ] بیان کردہ حقیقت کے [دوام اور ثبوت] پر دلالت کرتا ہے، کہ [اپنی مشیئت سے رزق دینا] ربِّ کریم کی دائمی اور ابدی صفت ہے، کوئی وقتی یا عارضی کیفیت نہیں۔[1] [جملہ فعلیہ] بیان کردہ حقیقت کے [استمرار و تسلسل] کو واضح کرتا ہے، کہ مولائے کریم کا اپنی مرضی سے [مخلوق کے رزق میں وسعت اور تنگی فرمانا] ہر روز ہی نہیں، بلکہ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی ایک تسلسل والی صفت ہے۔[2] سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ! سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ! iv: [بِغَیْرِ حِسَابٍ] کے بیان کردہ معانی میں سے دو حسبِ ذیل ہیں: پہلا معنیٰ: مخلوق کے اندازے، توقعات اور حساب و کتاب سے ماوراء عطا فرماتے ہیں، کہ ان کی تصوراتی صلاحیت اور شمار کرنے کی استعداد ربِّ کریم کے عطا کردہ رزق کی نوعیت، کیفیت اور مقدار کا احاطہ نہیں کر سکتی۔[3] دوسرا معنیٰ: ان کے استحقاق کے بقدر نہیں، بلکہ اپنی جانب سے از راہِ نوازش اور مہربانی۔[4] جہاں تک علیم و خبیر رب ذوالجلال کا تعلق ہے، تو اُن کے ہاں تو ہر چیز قطعی طور پر
[1] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۲۲/۷۵۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۲/۷۵۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۱/۳۸۲۔ [4] ملاحظہ ہو: الکشاف ۱/۴۲۷؛ و تفسیر البیضاوي ۱/۱۵۸؛ و تفسیر ابن کثیر ۱/۳۸۲؛ و تفسیر أبي السعود ۲/۳۰۔