کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 37
حال بیان کرنے سے بہت پہلے ہی سے اُن کے حالات سے خوب باخبر بھی ہیں۔ vi: (وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ) جملے میں مبتدا [ہُوَ] اور دونوں خبروں [اَلسَّمِیْعُ] اور [اَلْعَلِیْمُ] کے معرفہ ہونے کی بنا پر جملے میں حصر کی بنا پر اس کے حسبِ ذیل دو معانی ہیں: پہلا معنیٰ: وہ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں۔ دوسرا معنیٰ: اُن کے سوا کوئی اور خوب سننے والا خوب جاننے والا نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا تنگ دستوں کی فریادوں کو خوب سننے والا اور اُن کی محتاجی کو خوب جاننے والا کوئی اور ہے ہی نہیں، تو اُسے رزق دینے کا اختیار کیونکر حاصل ہو سکتا ہے؟ رزق دینے کی صلاحیت اور اختیار وحدہٗ لا شریک رب العالمین کے پاس ہی ہے، جو محتاجوں کی فریادوں کو خوب سننے والے اور حاجات کو خوب جاننے والے ہیں۔ گفتگو کا حاصل یہ ہے، کہ ربِّ کریم نے کائنات کی ہر جان دار چیز کے رزق کی ذمہ داری لینے کی خود خبر دی ہے، تاکہ اس حقیقت کا قطعی اور یقینی ہونا واضح ہو جائے اور لوگ مطمئن ہو کر غیر شرعی اور غیر ضروری سرگرمیوں سے دور رہیں۔ ربِّ کریم کائنات کی سب جان دار چیزوں، ان کے احوال، حاجات اور مناسبِ حال رزق سے آگاہ ہیں اور ہر چیز کو اُس کی جگہ میں رزق مہیا فرماتے ہیں، کمزور ترین مخلوق کی کمزوری، رزق کے پانے میں رکاوٹ نہیں اور قوی ترین لوگوں کی قوت، رزق کے حصول میں حرفِ آخر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ضعیف اور ناتواں مخلوق کو اُن کے ضعف کے برابر اور زور آور لوگوں کو اُن کے زور کے بقدر رزق نہیں دیتے، بلکہ سب کو اپنی مشیئت کے مطابق جس قدر، جب اور جیسے چاہیں، رزق عطا فرماتے ہیں۔