کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 33
کہ حضراتِ مفسرین نے بیان کیا ہے… چار درجِ ذیل ہیں: ا: اللہ تعالیٰ کے ازراہِ نوازش خود اپنے کیے ہوئے وعدے کی بنا پر اس کا واجب ہونا ہے۔[1] ب: جن و انس کے رزق کے انہیں پہنچنے کی قطعیت اور حتمیت کو اُجاگر کرنے کی خاطر۔[2] ج: مکلّفین کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کرنے کی غرض سے۔[3] د: مکلّفین کو رزق طلب کرتے ہوئے غیر شرعی، غیر ضروری جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے۔[4] iii: [وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا] [اور زمین میں چلنے والا کوئی جان دار نہیں، مگر اس کا رزق اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے] میں پہلے [مَا] النافیۃ، پھر [مِنْ دَآبَّۃٍ] حرف جار، اسم نکرہ اور پھر استثناء کے لیے [إِلَّا] کے استعمال سے جملے میں حصر کی بنا پر حسب ذیل دو معانی ہیں: پہلا معنیٰ: زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ دوسرا معنیٰ: زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے ذمے نہیں۔ دونوں جملوں کے ملانے سے معنیٰ درج ذیل ہو گا: [زمین میں چلنے والے ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے]۔ iv: (مُسْتَقَرَّہَا وَ مُسْتَوْدَعَہَا) کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ انہی میں سے
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۵/۲۵۹؛ و تفسیر البیضاوي ۱/۴۵۰؛ و تفسیر البحر المحیط ۵/۲۰۵؛ و تفسیر أبي السعود ۴/۱۸۶۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/۱۸۶۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۴۵۰؛ و تفسیر أبي السعود ۴/۱۸۶۔ [4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/۱۸۶۔