کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 30
رکھتے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔[1] تینوں معانی سے حاصل شدہ حقیقت یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کیے جانے والے معبودانِ باطلہ رزق میں سے کسی بھی چیز کی معمولی سی مقدار دینے کی ادنیٰ صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ ii: ارشادِ ربانی (وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ) [اور وہ استطاعت نہیں رکھتے] کی تفسیر میں بیان کردہ دو معانی حسب ذیل ہیں: پہلا معنیٰ: ان کے معبودانِ باطلہ میں رزق دینے کی سرے سے ہی کوئی صلاحیت نہیں۔[2] بالفاظِ دیگر وہ نہ صرف اب معمولی سا بھی رزق دینے کی ادنیٰ صلاحیت سے یکسر خالی ہیں، بلکہ صورتِ حال یہ ہے، کہ آئندہ بھی، کبھی بھی، کسی کو، اس بات کا حق نہیں ہو گا، کیونکہ وہ رزق دینے کی استعداد سے یکسر تہی دامن ہیں۔ بالفاظِ دیگر اُن میں رزق دینے کی نہ[بالفعل] صلاحیت ہے اور نہ [بالقوۃ] استعداد ہے۔ دوسرا معنیٰ: ان معبودوں کی پرستش کرنے والے کافروں میں معمولی سا رزق دینے کی بھی ادنیٰ صلاحیت نہیں۔ جب اُن زندہ لوگوں کو یہ استعداد نہیں، تو بے حس و حرکت اور بے جان بت انہیں کیا رزق دیں گے؟[3] گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، رزق عطا فرمانے والے اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ اُن کے سوا کسی میں رزق دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں۔ رزق عطا فرمانے میں اُن کی مشیئت کی راہ میں حائل ہونے کی بھی کسی کو مجال نہیں۔
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۴۱۹-۴۲۰؛ و تفسیر البیضاوي ۱/۵۵۱؛ و تفسیر أبي السعود ۵/۱۲۸۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۵۵۱؛ و تفسیر أبي السعود ۵/۱۲۸۔ [3] ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۴۱۹-۴۲۰؛ و تفسیر البیضاوي ۱/۵۵۱؛ و تفسیر أبي السعود ۵/۱۲۸۔