کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 27
فرمانے والے، زور دار، نہایت قوت والے ہیں۔
آیتِ کریمہ میں بیان کردہ حقیقت کی قطعیت، حتمیت، یقینی اور اٹل ہونے کی مزید تاکید کرنے والی باتوں میں سے چار حسبِ ذیل ہیں:
ا: ربِّ کریم نے جملے کی ابتداء لفظ [إِنَّ] سے فرمائی، جو بلاشبہ بات کی قطعیت پر دلالت کرتا ہے۔
ب: [جملہ اسمیہ] استعمال کیا، جو کہ بیان کردہ حقیقت کے دوام اور استمرار کا فائدہ دیتا ہے، کہ وہ ہمیشہ سے رزق دینے والے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رزق دیتے رہیں گے۔[1]
ج: اسم [إِنَّ] اور اس کی خبر [اَلرَّزَّاقُ] کے درمیان ضمیرِ فصل [ہُوَ] استعمال فرمائی۔ جس سے جملے میں [حصر] کی بنا پر حسبِ ذیل دو معانی حاصل ہوئے:
i: بلاشبہ اللہ تعالیٰ رزّاق ہیں۔
ii: یقینا اُن کے سوا کوئی اور رزّاق نہیں۔
اور دونوں معانی کو ملا کر حسبِ ذیل معنیٰ حاصل ہوا:
[بے شک اللہ تعالیٰ ہی رزّاق ہیں]۔ [2]
د: ربِّ کریم نے اپنے رزق عطا فرمانے کی خبر دیتے ہوئے [فَعَّالٌ] کا وزن استعمال فرماتے ہوئے [اَلرَّزَّاقُ] ارشاد فرمایا، جس کے معانی [بے حد رزق عطا فرمانے والے ہیں]۔ [3]
iii: ربِّ کریم نے [اَلرَّزَّاقُ] ہونے کی خبر دینے کے ساتھ فرمایا کہ وہ ہی [ذُو الْقُوَّۃِ] [زور آور] [اَلْمَتِیْنُ] ہیں۔
[اَلْمَتِیْنُ] [فَعِیْلٌ] کے وزن پر ہے، جس میں ذکر کردہ صفت کے بہت زیادہ
[1] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۲۲/۷۵۔
[2] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر و التنویر ۲۷/۲۹۔
[3] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۸۱۳؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۲۷/۲۹۔