کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 24
کہ: [اللہ تعالیٰ]، کیونکہ اس حقیقت کے انکار کی گنجائش ہی نہیں۔[1]
ii: پھر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: [فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ] یعنی اُن کی سرزنش کرتے ہوئے اُن سے پوچھیے،[2] کہ جب تم یہ تسلیم کرتے ہو، کہ آسمان اور زمین سے رزق دینے والے اور دوسرے تین کام کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں، تو پھر تم کیوں اُن کے ساتھ شرک کرتے اور اُن کی حکم عدولی کرتے ہوئے ڈرتے نہیں؟
iii: پھر فرمایا: (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ) [تو وہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے حقیقی رب ہیں، توپھر حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا رہ جاتا ہے؟ پھر تمہیں کدھر پھیرا جاتا ہے؟]
یعنی جب حق اور سچ بات یہ ہے، کہ آسمان اور زمین سے رزق دینے اور دیگر تین اوصاف میں اللہ تعالیٰ منفرد، یکتا، لاثانی، عدیم النظیر، بے مثال اور وحدہٗ لا شریک ہیں، تو پھر کسی اور کو ان چاروں کاموں کا کرنے والا یا اُن کے انجام دینے میں اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھنا، کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ جب یہ سمجھنا حق نہیں، تو ناحق، باطل، گمراہی اور ضلالت ہو گا، حق و باطل کے درمیان کوئی تیسری چیز نہیں ہوتی،[3] جیسے کہ جب دن نہیں، تو رات ہو گی اور رات نہیں، تو دن ہو گا، کسی تیسری چیز کے وجود کا تصور بھی خارج از امکان ہے۔
۴: ارشادِ باری تعالیٰ:
{اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ہَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِکُمْ مِّنْ
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر البحر المحیط ۵/۱۵۶۔
[2] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۴/۱۴۱۔
[3] ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۲۳۶۔