کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 22
تُؤْفَکُوْنَ}[1]
[اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی جو نعمت تم پر ہے، اُسے یاد کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے، جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو۔ اُن کے سوا کوئی معبود نہیں، تو تم کہاں بہکائے جاتے ہو؟]
آیتِ شریفہ کے حوالے سے تین باتیں:
i: آیتِ کریمہ میں بیان کردہ حقیقت، کہ [آسمان اور زمین سے رزق دینے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں] کی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے نعمت کے ذکر کرنے سے پہلے فرمایا:
[یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ]
قاضی ابو سعود لکھتے ہیں:
’’اس نعمت کے حق کی حفاظت کرو، اس کا اعتراف کرو اور اُس کے عطا فرمانے والے کے لیے اپنی عبادت اور طاعت کو مخصوص (خالص) کرو۔‘‘[2]
ii: ارشادِ باری تعالیٰ [ہَلْ مِنْ خَالِقٍ…] میں [ہَلْ] استفہامیہ [نفی] کے لیے ہے،[3] یعنی اگرچہ انداز تو پوچھنے اور سوال کرنے کا ہے، لیکن مقصود …واللہ تعالیٰ أعلم… یہ ہے، کہ اُن کے علاوہ اس نعمت کے عطا کرنے والا اور کوئی نہیں۔
iii: [لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ] میں نفی کے بعد اثبات ہے۔ [لَا] کے ساتھ نفی اور [إِلَّا ہُوَ] کے ساتھ اثبات۔
یہ بات معلوم ہے، کہ یہ اسلوب [صرف اثبات] سے زیادہ زور دار ہوتا ہے۔ [لَا إِلٰہَ] میں کسی کے بھی آسمان اور زمین میں رزق دینے کی نفی اور [إِلَّا ہُوَ] میں اللہ
[1] سورۃ فاطر / الآیۃ ۳۔
[2] تفسیر أبي السعود ۷/۱۴۲۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۲/۲۶۷۔
[3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۲۶۸۔