کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 21
کریم کی طرف سے اسے بدلنے سے جملے میں حصر پیدا ہوا، جس کی بنا پر اس کے حسبِ ذیل دو معانی ہوں گے:
ا: تمہارا رزق آسمان میں ہے۔
ب: تمہارا رزق آسمان کے سوا کہیں اور نہیں۔
اور دونوں معانی کے ملانے سے معنیٰ یہ ہو گا:
[آسمان ہی میں تمہارا رزق ہے]۔
iii: [آسمان ہی میں رزق ہونے] سے مراد یہ ہے، کہ وہ ربِّ کریم کی ہی جانب سے ہے، جو کہ عرشِ بریں پر مستوی ہیں۔[1]
iv: ربِّ کریم نے اس بیان کردہ حقیقت کی تاکید درجِ ذیل پانچ باتوں سے فرمائی:
ا: اپنی ذات بالا و برتر کی قسم کھائی۔
ب: بات کی پختگی کے لیے [إِنَّ] کو [إِنَّہٗ] میں استعمال فرمایا۔
ج: [إِنَّہٗ] میں [ہٗ] ضمیر الشان استعمال فرمائی، جو کہ بعد میں بیان کی جانے والی بات کی اہمیت اور شان و عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
د: [لَحَقٌّ] میں [لام توکید] [بات کو پختہ کرنے والا لام] استعمال فرمایا۔
ہ: بیان کردہ حقیقت کو بولنے والے انسان کے بولنے کے ساتھ تشبیہ دی، کہ جس کے سمجھنے اور ماننے میں بولنے والے کے لیے ادنیٰ شک کا احتمال بھی نہیں ہوتا۔[2]
۲: ارشادِ ربانی:
{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْأَرْضِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاَنّٰی
[1] ملاحظہ ہو: تیسیر الرحمٰن، ص ۱۴۷۰، فائدۃ ۹۔
[2] ملاحظہ ہو: بدائع التفسیر ۳/۴۲-۴۳۔