کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 18
چاہتے ہیں، رزق کو فراخ کر دیتے ہیں اور (جس کے لیے چاہتے ہیں،) تنگ کر دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں]۔ iv: اس آیتِ کریمہ میں ربِّ کریم نے (إِنَّہٗ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْمٌ) [بے شک وہ ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں] فرما کر [رزق کی کشادگی اور تنگی کرنے] کے معاملے میں یکتا اور منفرد ہونے کی علّت اور وجہ کو بھی بیان فرما دیا، کہ کائنات میں نہ تو کوئی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور نہ ہی کسی کو [رزق کی وسعت اور تنگی کرنے] کا حق حاصل ہے۔[1] v: ربِّ کریم نے (لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ) ایک مرتبہ نہیں، بلکہ دو دفعہ فرمایا۔ کسی حقیقت کی قطعیت کے لیے اُن کا ایک بار فرمانا ہی بہت کافی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ایک ہی بات دو مرتبہ فرمائیں، تو اس کا حتمی اور اٹل ہونا کس قدر ہو گا! ۳: ارشادِ ربانی: {وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ}[2] [اور جن کو تم اُن کے سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں]۔ آیتِ شریفہ کے حوالے سے دو باتیں: i: [قِطْمِیْر] سے مراد کھجور کی گٹھلی کے اُوپر لفافے کی مانند موجود باریک چھلکا۔[3] ii: جب اللہ تعالیٰ کے سوا (تمام مخلوق میں سے تمام پکارے جانے والے کھجور کی) گٹھلی کے اوپر موجود باریک چھلکے کے بھی مالک نہیں، تو پھر وہ اپنے سے مانگنے والے
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۸/۲۵۔ [2] سورۃ فاطر/ جزء من الآیۃ ۱۳۔ [3] ملاحظہ ہو: المعجم الوسیط، مادۃ ’’قطمیر‘‘، ۲/۷۴۷۔ نیز ملاحظہ ہو: مختار الصحاح، مادۃ ’’ق ط م ر‘‘، ص ۳۹۸؛ و تفسیر البیضاوي ۲/۲۷۰؛ و تفسیر أبي السعود ۷/۱۴۸۔