کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 17
آیتِ شریفہ کے حوالے سے پانچ باتیں:
i: سابقہ آیتِ کریمہ کی طرح اس آیتِ شریفہ میں بھی تقدیم و تاخیر کی بنا پر حصر ہے اور جملے کے حسبِ ذیل دو معانی ہیں:
ا: اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی چابیاں ہیں۔
ب: اُن کے سوا کسی اور کے پاس آسمانوں اور زمین کی چابیاں نہیں۔
اور دونوں معانی کو ملانے سے معنیٰ درجِ ذیل ہے:
[اُن ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی چابیاں ہیں۔]
ii: سابقہ آیتِ شریفہ میں بیان کردہ بات کے علاوہ اس آیت کریمہ میں ایک مزید بات یہ ہے، کہ کائنات کے خزانوں میں اُن کے سوا کسی کو تصرف اور دخل اندازی کا حق و اختیار نہیں۔ جب اُن خزانوں کی چابیاں اُنہی کے پاس ہیں، تو کوئی دوسرا کیسے اور کیونکر اُن میں دخل دے سکتا ہے؟[1]
iii: جب آسمانوں اور زمین کی چابیاں اُن کے سوا کسی اور کے پاس نہیں، تو رزق دینے یا نہ دینے میں اُن کے سوا کسی اور کی مشیئت اور چاہت کا کیا دخل ہو سکتا ہے؟
ربِّ کریم نے سورۃ الشوریٰ میں اس جملے کے بعد خود ہی اس حقیقت کو واضح فرما دیا۔ ارشادِ ربانی ہے:
{لَہٗ مَقَالِیدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ إِِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ}[2]
[اُن ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ جس کے لیے
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۲/۳۳۰؛ و تفسیر أبي السعود ۷/۲۶۱۔
[2] سورۃ الشورٰی/ الآیۃ ۱۲۔