کتاب: رزق اور اس کی دعائیں - صفحہ 16
ہے۔ تقدیم و تاخیر کے سبب جملے میں حصر کی وجہ سے، درجِ ذیل دو معانی ہیں:
ا: آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔
ب: آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہیں۔
اور دونوں معانی کو ملانے سے حسبِ ذیل معنیٰ ہو گا:
[آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں]۔
ii: آیتِ شریفہ کے دوسرے جملے:
(وَ لٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ)
سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ پہلے جملے میں بیان کردہ حقیقت کو نہ سمجھنا منافقین کا وصف ہے۔
کوئی ایمان والا شخص یہ کیسے گوارا کرے گا، کہ اس میں منافقین والا وصف ہو؟
ربِّ کریم ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس بُرے وصف سے محفوظ رکھیں۔ إِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔
iii: جب کائنات کے تمام خزانوں کے اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے مالک ہیں، تو رزق دینے اور نہ دینے میں کسی اور کو کیسے دخل ہو سکتا ہے؟ شیخ سعدی لکھتے ہیں:
’’پس وہ جسے چاہتے ہیں، رزق دیتے ہیں اور جس سے چاہتے ہیں، روک لیتے ہیں۔ جس کے لیے چاہتے ہیں، (رزق کے) اسباب کو آسان کر دیتے ہیں اور جس کے لیے چاہتے ہیں، انہیں مشکل بنا دیتے ہیں۔‘‘[1]
۲: ارشادِ ربانی:
{لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ}[2]
[اُن ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں]۔
[1] تفسیر السعدي ص ۸۶۵۔
[2] سورۃ الزمر/ جزء من الآیۃ ۶۳۔