کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 94
یکسر مختلف تھا، اس لیے ان پر دوسرے قسم کے اثرات مترتب ہوئے اور اسی کے مطابق ان کی پالیسی اور اقدامات سے نتائج بھی ہولناک ہی برآمد ہوئے۔ان ہولناک نتائج کے پس منظر میں،ہمیں وہ سارے اسباب بہ یک وقت کارفرما نظر آتے ہیں جن کی وضاحت ہم نے گزشتہ صفحات میں کی۔یعنی:
۱۔اپنے حق پر او ربرتر ہونے کا احساس
۲۔اختلاف وانشقاق ہی کی راہ کو اپنانے پر اصرار
۳۔بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں انہیں اپنے مفادات و مقاصد کے حصول کےلیے استعمال کرنے کی سعی۔
جہاں تک احساس برتری کا تعلق ہے، اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ یقیناً حق بجانب تھے۔فضائل ومناقب کے اعتبار سے وہ بلا شبہ یزید سے بدرجہا بہتر اور برتر تھے اور اس بنا پر اگر خلافت کےلیے ان کا انتخاب کرلیا جاتا تو بجا طور پر وہ اس کے مستحق تھے۔لیکن حکومت و اقتدار کی تاریخ بھی یہی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی کہ اس میں فضائل کم دیکھے جاتے ہیں اور دوسرے عوامل زیادہ۔یہی وجہ ہے کہ حکومتوں پر اکثر ایسے ہی لوگ فائز ہوتے چلے آئے ہیں جو مفضول ہوتے تھے اور افضل لوگ اس سے محروم۔اسی لیے علمائے سیاست میں سے کسی نے بھی خلافت وحکومت کی اہلیت کےلیے افضلیت کو معیار تسلیم نہیں کیا ہے۔بلکہ اس سے ہٹ کر دوسرے، معیارات ہی کو بنیاد بنایا ہے۔بنا بریں محض افضلیت کی وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہی کو مستحق خلافت قرار دینا اور کسی مفضول کے اس منصب پر فائز ہونے کو یکسر رد کردینا، معقول بات نہیں، اس طرح تو تاریخ اسلام کے بھی اکثر خلفاء و سلاطین نااہل قرار پائیں گے۔حتی کہ اس نکتے کی وضاحت کےلیے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ادوارِ خلافت ہی پر نظر ڈال لینا کافی ہے۔اس میں بھی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔دونوں کی بابت صرف اس تبصرے ہی میں کافی رہنمائی ہے جو حافظ ابن کثیر نے کئے ہیں۔حافظ ابن کثیررحمہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت لکھتے ہیں:
’’امیر المؤمنین پر ان کے معاملات خراب ہوگئے تھے، ان کا لشکر ہی ان سے