کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 93
((یا بنی! لیت أباک مات قبل ھٰذا الیوم بعشرین عاماً))
’’بیٹے! کاش تیرا باپ اس دن سے ۲۰ سال قبل مرگیا ہوتا‘‘
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: "یا أبت قد کنت أنھاک عن ھٰذا" "ابا جان! میں تو آپ کواس سے منع ہی کرتا رہا۔"(البدایہ، ۲۵۱/۷)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے کو کیوں قبول نہیں کیا اور ا س کے برعکس موقف کیوں اپنایا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں(اس کےلیے راقم کی کتاب "خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت" کا مطالعہ مفید رہے گا)یہاں اس وقت یہ پہلو واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے مزاج افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جُو تھے، وہ قدم قدم پر اپنے والد گرامی کو بھی یہ پالیسی اختیارکرنے کی تلقین کرتے رہے اور پھر ۴۰ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کی زمام کار حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئی اور انہیں خلیفہ تسلیم کرلیا گیا تو اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت میں دست بردار ہوگئے اور لڑائی جھگڑے کو طول دینے کی بجائے صلح ومفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کا مصداق بنے جو آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے تدبر، جذبۂ مفاہمت اور قربانی سےخانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا اور امن واستحکام کا ایک نیا دور شروع ہوا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک رہا۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ۲۰ سالال دور خلافت میں اسلامی قلمرو اندرونی شورشوں سے محفوظ رہی،امن و خوش حالی کا دَور دَورہ رہا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پانچ سالہ دور میں بند رہا، پھر سے نہ صرف جاری ہوا بلکہ اس کا دائرہ مسلسل وسعت پذیر رہا۔یہ نتیجہ تھا حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی صلح پسندانہ پالیسی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم وتدبر اور حسن سیاست کا، رضی اللّٰه عنہما۔
۵۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مزاج حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے