کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 91
خلیفہ بننے کے بعد قبول نہیں کیا۔لیکن دونوں،اتنے بااختیار اور ہمہ مقتدر ضرور تھے کہ دونوں کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی جس کی وجہ سے دونوں کے سیاسی اختلافات باہم معرکہ آرائی اور خانہ جنگی پر منتج ہوئے۔ ۳۔ہمہ مقتدر اور بااثر شخصیات کے باہمی اختلاف و مناقشہ کے، ان کے بعد آنے والے اخلاف پر، دو قسم کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔کچھ تو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اختلافات سے سوائے نقصان اور مزید بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔چنانچہ وہ صلح جوئی کی پالیسی اختیار اور مقابلہ آرائی سے گریز کرتےہیں۔ اور بعض بوجوہ اسی اختلاف اور مقابلہ آرائی پر گامزن رہتے ہیں۔اس کے کئی اسباب و وجوہ ہوتے ہیں، مثلاً اپنے حق پر یا برتر ہونے کا احساس۔یا ان کے ساتھیوں کا اسی راہ کو اختیار کرنے پر اصرار یا بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں اپنے مفادات یا مقاصد کے حصول کےلیے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کرنا، وغیرہ اس نقطۂ نظر سے جب ہم اس سانحے کے پس منظر کو دیکھتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اخلاف(اولاد)میں مذکورہ دونوں قسم کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ۴۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ اختلاف کی بجائے صلح کو پسند کرنے والے ہیں۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صلح جویانہ طبیعت کا تو یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے والد محترم سے ان کی زندگی میں بھی ان کی مقابلہ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کیا اور انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے لڑنے کا عزم کیا جنہوں نے آپ کی بیعت خلافت نہیں کی، تو آپ کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: ((یا ابتی دع ھٰذا فإن فیہ سفک دماء المسلمین ووقوع الإختلاف بینھم، فلم یقبل منہ ذٰلک، بل صمم علی القتال ورتب الجیش))(البدایۃ والنہایۃ: ۲۴۰/۷ حالات ۳۶ھ دارالدیان،مصر ۱۹۸۸ء) ’’اباجان! اس ارادے کو ترک فرما دیجئے! اس میں مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی