کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 9
سانحۂ شہادت تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی۔
﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً﴾[المائدة: ۳/۵]
اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو یقینا ً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے،کم ہوتا۔لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں، دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لیے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں۔
٭٭٭