کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 78
بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادے سے دستبردار ہوگئے[1] تھے اور فرماتے[2] تھے۔
"مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمانوں کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو[3]مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نامنظور کردیا کیونکہ اسے منظور کرنا ان پر شرعاً واجب نہ تھا۔
[1] یعنی راستے ہی سے واپس مکہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن مسلم کے بھائیوں کے اصرار کا ساتھ دینا پڑا جیسا کہ شیعہ سنی سب تاریخوں میں ہے۔(ص،ی)
[2] یعنی منزل مقصود پر پہنچ کر جب ابن زیاد کی فوج کے سربراہ عمر بن سعد سے گفتگوئے مصالحت کے سلسلے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے متن میں مذکور تین باتیں فرمائیں
[3] اس تیسری بات کے بارے میں تاریخ طبری ۲۹۳/۴ میں یہ الفاظ ہیں:
((فأضع یدی فی یدہ فیحکم فی ما رأیٰ))(البدایۃ: ۱۷۱/۸)
"میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا(بیعت کرلوں گا)پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ایک جگہ یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
((وطلب أن یردوہ إلی یزید ابن عمہ حتی یضع یدہ فی یدہ أو یرجع من حیث جآء أو یلحق الثغور))(رأس الحسین، ص:۲۰)
مطلب وہی ہے جو متن میں ہے۔(ص،ی)