کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 61
’’امام غزالی سے سوال کیا گیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے، جو یزید پر لعنت کرتا ہے؟ کیا اس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا یا اس کا مقصد صرف اپنی مدافعت تھا؟ اس کو "رحمۃ اللہ علیہ " کہنا بہتر ہے یا اسے سکوت افضل ہے؟‘‘ امام غزالی نے جواب دیا مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں، جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘علاوہ ازیں ہمیں تو ہماری شریعت اسلامیہ نے بہائم(مسلمانوں)تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح جائز ہوجائے گا؟ جبکہ ایک مسلمان کی حرمت(عزت)حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہے۔(سنن ابن ماجہ) یزید کا اسلام صحیح طور ثابت ہے جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعے کا تعلق ہے سو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضامندی ظاہر کی۔جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایۂ ثبوت ہی کو نہیں پہنچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیونکر جائز ہوگی؟ جبکہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے "تم خوامخواہ بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض دفعہ بدگمانی بھی گناہ کے دائرے میں آجاتی ہے" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون، مال،عزت و آبرو اور ا س کے ساتھ بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا، وہ پرلے درجے کا احمق ہے۔کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا لیکن وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کہ کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسند کیا دراں حالیکہ ان کے قتل اس کے بالکل قرب میں اور اس کے زمانے میں ہوئے اور ا س نے ان کا