کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 59
…۸… یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے ﴿امام غزالی کا فتویٰ﴾ مذکورہ مضمون میں متعدد جگہ امام غزالی کے جس فتویٰ کا ذکر آیا ہے اور اس کی بعض عبارتیں نقل ہوئی ہیں وہ پورا فتویٰ افادۂ عام کی غرض سے ذیل میں مع ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔ ((وقد أفتیٰ الإمام أبو حامد الغزالی رحمہ اللّٰه تعالیٰ۔۔۔فإنہ سئل عمن صرح بلعن یزید ھل یحکم بفسقہ أم یکون ذٰلک مرخصاً فیہ؟ وھل کان مریداً قتل الحسین رضی اللّٰه عنہ أم کان قصدہ الدفع؟ وھل یسوغ الترحم علیہ أم السکوت عنہ أفضل؟ ینعم بإزالۃ الاشتباہ مثاباً فأجاب "لا یجوز لعن المسلم أصلاً ومن لعن مسلماً فھو الملعون وقد قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم "المسلم لیس بلعان" وکیف یجوز لعن المسلم ولا یجوز لعن البہائم وقد ورد النہی عن ذٰلک وحرمۃ المسلم أعظم من حرمۃ الکعبۃ بنص النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ویزید صح إسلامہ وما صح قتلہ الحسین رضی اللّٰه عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک منہ لا یجوز أن یظن ذٰلک بہ فإن إسآءۃ الظن بالمسلم أیضاً حرامٌ وقد قال تعالیٰ﴿اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾وقال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم إن اللّٰه حرم من المسلم دمہ ومالہ وعرضہ وأن یظن السوء ومن زعم أن یزید أمر بقتل الحسین رضی اللّٰه عنہ أو رضی بہ فینبغی أن یعلم