کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 57
امالی، طبع ۱۳۱۷ھ لاہور) "اہل سنت کا مذہب ہے کہ لعنت کرنا سوائے کافر کے کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں یزید کافر نہیں، سنی مسلمان تھا اور کوئی شخص محض گناہ کرلینے سے کافر نہیں ہوتا۔تمہید میں ہے کہ خود قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو بھی کافر نہیں کہا جاسکتا۔اس لیے کہ گناہ کرلینے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا۔" الغرض یزید کو مغفرت کو بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی طرح بھی خارج نہیں کیا جاسکتا، جن لوگوں نے ایسی کوشش کی ہے ان کے پاس سوائے بغض یزید اور جذبۂ حب حسین رضی اللہ عنہ کے کوئی معقول دلیل نہیں۔ سب سے زیادہ تعجب مدیر "رضائے مصطفٰے" اور ان کے ہمنواؤں پر ہے کہ ایک طرف وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم ما کان وما یکون تسلیم کرتے ہیں او ر دوسری طرف آپ کی دی ہوئی بشارت میں سے یزید کو خارج کرنے میں کوشاں ہیں۔ہم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب تسلیم نہیں کرتے۔البتہ بشارات کا منبع وحیٔ الہٰی کو مانتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مستقبل کے متعلق جتنی بھی پیش گوئیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے علم اور وحی پا کر کی ہیں جو کبھی غلط نہیں ہوسکتیں اور آپ تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی پیش گوئی پر اعتقاد نہیں، کیسی عجیب بات ہے؟ آپ کے نزدیک اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی خبر دی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم تھا یا نہیں کہ اس میں یزید جیسا شخص بھی شامل ہوگا؟ اور یہ بھی آپ کو علم تھا یا نہیں کہ یزید بعد میں کافر ومرتد ہوجائے گا؟ اگر ان دونوں باتوں کا آپ کو اس وقت علم تھا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یزید کو مغفرت و بشارت سے خارج کیوں نہیں کیا؟ اور علم ہوتے ہوئے اگر آپ نے یزید کو خارج نہیں کیا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ امید ہےمدیر موصوف اپنے عقیدۂ علم غیب کے مطابق ان سوالات کی وضاحت ضرور فرمائیں گے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی جو پیش گوئی فرمائی