کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 56
((فإن قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین أو آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت أصلا ولا یجوز أن یقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم یثبت))(أحیاء العلوم:۱۳۱/۳)
’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے،کیونکہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے یا ان کے قتل کا حکم دینے والا ہے تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک کوئی ثبوت نہ ہو اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔‘‘
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یزید ہی نے قتل کا حکم دیا تب بھی حکم قتل تو کجا، اگر وہ خود ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا ہوتا تب بھی محض قتل سے کافر و مرتد قرار نہیں پا سکتا چہ جائے کہ حکم قتل سے۔یہ بھی ایک کبیرہ گناہ ہی ہے، کفر وارتداد نہیں۔چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
((علی أن الأمر بقتل الحسین بل قتلہ لیس موجباً للعنۃ علی مقتضیٰ مذہب أھل السنۃ من أن صاحب الکبیرۃ لا یکفر فلا یجوز عند ھم لعن الظالم الفاسق کما نقلہ جماعۃ یعنی بعینہ))(ضوء المعالی علی بدء الأمالی ص:۸۶، طبع جدید)
’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دینا بلکہ خود ان کا قتل کردینا بھی مذہب اہل سنت کے مقتضی کے مطابق لعنت کا موجب نہیں،(اس لیے کہ یہ کبیرہ گناہ ہی ہے)اور مرتکب کبیرہ گناہ کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔پس اہل سنت کے نزدیک کسی ظالم،فاسق شخص کےلیے متعین طور پر لعنت کرنی جائز نہیں۔‘‘
ایک اور حنفی بزرگ مولانا اخوند درویزہ اسی قصیدہ امالی کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’مذہب اہل سنت وجماعت آن ست کہ لعنت بغیر از کافر مسلمان رانیا مدہ است۔پس یزید کافر نبود بلکہ مسلمان سنی بود وکسے بہ گناہ کردن کافر نمی شود در تمہید آور دہ است کہ قاتل حسین را نیز کافر نباید گفت۔زیرا کہ بہ گناہ کردن کسے کافر نمی شود۔’‘(شرح قصیدہ