کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 55
بات سے کہ ان شرکاء میں سے بعد میں کفر وارتداد کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ اس بشارت سے خارج ہوجائے گا لیکن اس تاویل میں کوئی وزن نہیں۔معلوم نہیں صحیح بخاری کے جلیل القدر شارحین اس تاویل کو بغیر کسی رد و نقد کے کیوں نقل کرتے آئے ہیں؟ حالانکہ یہ تاویل بالکل ویسی ہی ہے جیسی تاویل شیعہ حضرات صحابہ ٔ کرام کے بارے میں کرتے ہیں۔وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کو "رضی اللّٰه عنہم ورضوا عنہ" کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ(نعوذباللہ)وہ مرتد ہوگئے، اس لیے وہ اس کے مستحق نہیں رہے۔اگر صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ لغو تاویل آپ کے نزدیک قابل قبول نہیں تو پھر یزید کے بارے میں یہ تاویل کیوں کر صحیح ہوجائے گی؟ پھر محض امکان کفر و ارتداد کو وقوع کفر وارتداد سمجھ لینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔مان لیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی مشروط ہے اور کفر وارتداد کرنے والے اس سے خارج ہوجائیں گے لیکن اس کے بعد اس امر کا ثبوت بھی تو پیش کیجئے کہ یزید کافر و مرتد ہوگیا تھا اور پھر اسی کفر وارتداد پر اس کا خاتمہ بھی ہوا، جب تک آپ کا واقعی ثبوت پیش نہیں کریں گے بشارت نبوی کو مشروط ماننے سے بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگریہ کہا جائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم یا اس پر رضامندی یہی کفر وارتداد ہے تو یہ بھی لغو ہے۔اول تو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا، جیسا کہ امام غزالی نے اس کی تصریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ((ما صح قتلہ للحسین رضی الہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک))(وفیات الاعیان: ۴۵۰/۲) "حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا، ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں۔" اور احیاء العلوم میں لکھتے ہیں: