کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 54
جواب نمبر8:مسئلہ یزید کی مغفرت کا:مغفرت سے مراد وہی ہے جو اس کا عام مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کے گناہوں کو نظر انداز کرکے اس کو معاف کردینا، بخش دینا اور اپنے انعامات کا مستحق قرار دے دینا۔ باقی رہی بات کہ محدثین وشراح بخاری نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں؟ اور’’ابن مہلب’‘کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟ تو محترم مدیر صاحب! اگر ہماری مختصر تصریحات پر ذرا گہری نظر سے غور فرمالیتے تو شاید وہ یہ سوالات نہ کرتے کہ ہماری مختصر سی عبارت میں ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے۔مناسب ہے کہ ہم پہلے اپنے سابقہ مضمون کی وہ عبارت یہاں نقل کردیں جس پر یہ سوال کیا گیا ہے۔اس کے بعد مزید گفتگو موزوں رہے گی۔ہم نے لکھا تھا: ’’کم از کم ہم اہل سنت کو اس حدیث کے مطابق یزید کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہیے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزید اس جنگ کا کمانڈر تھا۔یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، کسی کاہن یا نجومی کی پیشین گوئی نہیں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کردیں۔اگر ایساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پیشین گوئی میں فرق باقی نہ رہے گا۔کیا ہم اس حدیث کی مضحکہ خیز تاویلیں کرکے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مدیر موصوف کو اگر ہماری اس بات سے اختلاف تھا تو ان کو بتلانا چاہیے تھا کہ نبی کی بشارت اور نجومی کی پیشگوئی میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ کیونکہ اس حدیث کی ایسی تاویل جس سے بشارت کا پہلو ختم ہوجائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ایک کاہن کے قول سے زیادہ اہمیت نہ دینے پر ہی صحیح قرار پاسکتی ہے۔اس کے بغیر جب غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء میں سے کسی ایک کو بھی مغفرت کی بشارت سے خارج نہیں کیا جاسکتا تو ہمیں بتایا جائے کہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کوئی بھی اٹل ہو اور پھر اس میں سے کسی کا تخلف بھی ہوجائے، بیک وقت دونوں باتیں ممکن نہیں۔ امام مہلب کے قول یہی تو کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مشروط ہے اس