کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 53
پر مبنی ہے موصوف نے ذرا بھی غور وفکر سے کام لیا ہوتا تو اس سطحیت کا مظاہرہ شاید نہ فرماتے۔ہم موصوف سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آج تک شخصی طور پر کسی زانی یا شرابی یا چور یا قاتل مسلمان کے لیے دعائے مغفرت ورحمت سے کسی عالم نے روکا ہے؟ اگر روکا ہے تو حوالہ دیں، اور اگر شرابی اور زانی کےلیے مغفرت و رحمت کی دعا کرنی جائز ہے تو رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کا مطلب بھی تو مغفرت ورحمت کی دعا ہے، اس کا مفہوم کچھ اور تو نہیں؟ اسی طرح ہم موصوف سے پوچھتے ہیں کہ آج تک کسی عالم نے کسی زانی یا شرابی یا چور یا قاتل مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو حوالہ دیں بصورت دیگر ازخود ایسے مجرموں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا ثابت ہوگیا کیونکہ نماز جنازہ بھی تو مغفرت ورحمت کی دعا ہے۔اگر ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب کےلیے نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے بلکہ ضرور پڑھی جاتی ہے تو پھر اسے رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہنے میں کیا حرج ہے؟ اگر یہ نکتہ اب بھی موصوف کےذہن میں نہیں آیا تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کسی کےلیے مغفرت و رحمت کی دعا کرنے میں یا اس کی نماز جنازہ پڑھنے میں یا اس کےلیے رحمۃ اللہ علیہ کہنے میں کیا فرق ہے؟ ہمارے نزدیک تو تینوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔اگر موصوف کے نزدیک کچھ فرق ہے تو وضاحت فرمائیں کہ ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوسکے کہ ایک مرتکب کبیرہ گناہ مسلمان کی نماز جنازہ تو پڑھنی جائز بلکہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا جائز نہیں، اس لیے کہ ان کے درمیان یہ یہ فرق ہے۔امید ہے موصوف ان سوالات کی وضاحت فرماکر ہماری شک یا غلط فہمی دور کردیں گے۔ سوال نمبر 8:آپ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے حوالے سے یزید کی مغفرت کی جو تصریح کی ہے۔اس مغفرت سے کیا مراد ہے۔اور محدثین وشراح بخاری نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں اور ابن[1] مہلب کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟
[1] یہ "ابن مہلب" نہیں صرف "مہلب" ہے سائل کو غالباً مغالطہ لگا ہے یا قلم کا سہو ہے۔