کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 51
اس لیے ان کے لیے’’امام’‘کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے’’علیہ السلام’‘لکھتے اور بولتے ہیں۔ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم" نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ ٔ کرام کی طرح’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ’‘لکھنا اور بولنا چاہیے۔’’امام حسین علیہ السلام’‘نہیں۔کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔’‘(الاعتصام ۱۱ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ) اتنی صراحت و وضاحت کے بعد بھی مدیر موصوف کا عدم اطمینان ناقابل فہم ہے اگر وہ اس فرق کی کچھ توضیح کردیتے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے تو ان کی توہین نہیں ہوتی لیکن حضرت حسین کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے ان کی توہین ہوجاتی ہے۔تو ہم اپنے موقف پر نظر ثانی کرلیتے۔یہ عجیب انداز ہے کہ ہمارے دلائل کا کوئی جواب بھی نہیں اور اسی طرح اپنے دلائل کا اظہار بھی نہیں لیکن پھر بھی حضرت حسین کی توہین کا بچکانہ اعتراض۔ع تمہی کہو یہ انداز "تحقیق" کیا ہے؟ باقی رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ابن تیمیہ میں آپ کا عجیب قسم کا موازنہ! تو جواباً عرض ہے کہ حدیث و فقہ کے مسلمہ عالم وفقیہ کو امام لکھنا اگر آپ کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے جس کے لیے آپ دلیل شرعی کا مطالبہ کررہے ہیں تو ہماری سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کےلیے تو’’امام’‘نہیں لکھتے لیکن ائمہ اربعہ اور سینکڑوں علماء وفقہاء کو امام لکھتے ہیں تو کیا امام ابو حنیفہ، امام شافعی وغیرہ لکھ کر انہیں ابو بکر و عمر سے فوقیت دیتے ہیں؟ ((ما ھو جوابکم فھو جوابنا)) پھر آپ امام ابو حنیفہ کو’’امام اعظم’‘لکھتے ہیں۔کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے صرف’’امام’‘اور امام ابو حنیفہ کے لیے’’امام اعظم‘‘کیا یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین نہیں؟ اور آگے بڑھئے! آپ تمام صحابہ کرام کے لیے حضرت کا لفظ استعمال کرتےہیں۔بلکہ