کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 50
اب اس وقت ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس سے ناپ کر یا تول کر ابن زیاد اور عمر بن سعد کی غلطی کا اندازہ کرکے کوئی حکم لگایا جاسکے اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے حسن سلوک میں انہوں نے کوئی کوتاہی کی ہے تو وہ یقیناً مجرم ہیں۔تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عمل اور رد عمل کے بنیادی نکتے کو نظر انداز کرکے بات بالعموم خاندانی شرف وفضل کے اعتبار سے کی جاتی ہے جو اصولاً غلط اور تحقیقی نقطۂ نظر کے منافی ہے۔
سوال نمبر 6:ایک طرف لفظ امام اسے انکار اور صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر اصرار اور دوسری طرف ابن تیمیہ کو نہ صرف امام بلکہ "شیخ الاسلام ابن تیمیہ" تحریر کرنا ابن تیمیہ کی "امام" حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کون سی فوقیت اور دلیل شرعی پر مبنی ہے؟‘‘
جواب نمبر6:افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مدیر موصوف نے ہماری گزارشات کو غور سے نہیں پڑھا، اگر وہ ایسا کرلیتے تو ان کے قلم سے اس سطحیت کا اظہار نہ ہوتا جو ان کے سوال سے عیاں ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنی وہ وضاحت نقل کردیں جس پر یہ سوال وارد کیا گیا ہے ہم نے لکھا تھا۔
’’اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچےسمجھے’’اما م حسین علیہ السلام’‘بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ’’امام’‘کا لفظ بولنا اور اسی طرح’’رضی اللہ عنہ’‘کے بجائے’’علیہ السلام‘‘کہنا بھی شیعیت ہے۔ہم تمام صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر،حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر’‘نہیں بولتے۔اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد’’رضی اللہ عنہ’‘لکھتے اور بولتے ہیں۔اور کبھی’’ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضر ت عمر علیہ السلام؏؏ نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ’’رضی اللہ عنہ’‘کے بجائے’’علیہ السلام’‘بولتے ہیں۔کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہوگیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت" کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں،