کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 49
معقول دلائل ہیں تو ان سے مطلع فرمائیں۔
سوال نمبر5:’’یزید کے آلہ کار ابن زیاد، شمر، وغیرہم کس حد تک مجرم ہیں اور آپ کے نزدیک ان کا کیا حکم ہے؟‘‘
جواب نمبر5:یہ لوگ یزید کے آلہ کار نہیں، اہلکار تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام جو ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوگئی تھی اس سے اپنی صوابدید کے مطابق انہوں نے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی۔یہ کوشش مذموم تھی یا مستحسن؟ اس میں رائے دہی خرط القتاد والی بات ہے۔ایک تو تاریخ کی متضاد روائتوں نے واقعات کو بہت الجھا دیا ہے۔دوسرے اس’’سیاسی’‘نوعیت کے واقعے کو’’مذہبی’‘رنگ دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس پر کھل کر گفتگو کرنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہوگیا ہے۔
ہم تاریخی تضاد کے انبار سے اگر حقیقت کی چہرہ کشائی کریں تو یہ راستہ طویل بھی ہوگا اور پھر بھی شائد آپ کے لیے ناقابل قبول۔کیونکہ کہا جاسکتا ہےکہ یہ تاریخی روایات کا ایک پہلو ہے جب کہ روایات کا دوسرا پہلو اس کے برعکس ہے۔اس لیے ہم مختصراً صرف واقعے کی روشنی میں اتنا ہی عرض کریں گے کہ آپ جذبات اور مذہبیت سے الگ ہوکر معاملے کو واقعاتی سطح سے دیکھیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر بیعت خلافت لینے کے لیے تشریف لائے تھے وہ جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے تھے، کیونکہ ۶۰۔۷۰، افراد کے ساتھ جو بیشتر اہل خانہ ہی تھے جنگ نہیں ہوا کرتی۔اہل کوفہ نے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔لیکن کیا حاکم وقت کے اہل کار بھی اپنے اس حاکم سے بغاوت کرڈالتے جس پر تمام مسلمان متفق ہوچکے تھے۔ایسا چونکہ ممکن نہیں تھا۔تاہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے خیر سگالی کی گفتگو کی گئی جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہونے لگا تھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نےتو اپنے موقف سے رجوع کرکے تین شرائط بھی پیش کردی تھیں جن میں ایک شرط یزید کے پاس بھیج دینے کی بھی تھی لیکن انہی کوفیوں کی شرارت کہہ لیجئے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر بلوایا تھا یا ابن زیاد وغیرہ کی سختی کہ معاملہ سلجھتے سلجھتے الجھ گیا اور بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تک جاپہنچی۔