کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 48
‘’رضا مندی’‘کی بات قابل قبول ہوسکتی ہے۔موجودہ صورت میں تو یہ ہوائی باتیں ہیں جن سے اہل دانش کے نزدیک یزید پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا اسی لیے تو امام غزالی جیسے ائمہ نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے۔
((ما صح قتلہ للحسین رضی اللّٰه عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک))(وفیات الأعیان:۴۵۰/۲)
یعنی’’یزید کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا س کے قتل کا حکم دیا، یا ان کے قتل پر رضامند تھا۔ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں۔‘‘
اور احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
((ولا یجوز أن یقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم یثبت))(۱۳۱/۳)
’’بغیر ثبوت کے یہ کہنا جائز ہی نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘
اگر ایک بشارت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا مصداق ہونے کے باوجود آپ یزید کا قافیہ’’پلید’‘ہی سے ملانے پر مصر ہیں تو آپ کی مرضی۔ہم کسی کی زبان و قلم پر پہرے نہیں بٹھا سکتے۔تاہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اس طرح کے ذہنی تحفظ کا مظاہرہ ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ بعض اکابر علماء نے بھی یزید کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے لیکن انہوں نے عدم تحقیق کی بنا پر روا روی میں ایسا کیا ہے اور اس معاملے کی گہرائی میں وہ نہیں گئے اور بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے کہ بعض مسائل میں جس طرح عام رائے ہوتی ہے بڑے بڑے محقق بھی انہیں تسلیم کرلیتے ہیں۔لیکن جب کوئی دیدہ ور اس کی تہ میں اتر کر نقاب کشائی کرتا ہے تو صورت معاملہ بالکل مختلف نکلتی ہے اس لیے اس دور میں جب یزید کا کردار نقد ونظر کی کسوٹی پر پرکھا گیا اور اس پر عام بحث ہوئی تو بہت سےمخفی گوشے بے نقاب ہوگئے۔اب اگر کوئی شخص یزید کو’’پلید’‘لکھنے پر اصرار کرتا ہے تو اسے بعض پچھلے علماء کی طرح معذور سمجھنا مشکل ہے ہاں اگر آپ کے نہاں خانہ ٔ دماغ میں(ذاتی و سطحی باتوں کے علاوہ)اپنے’’پلید’‘یا’’ملعون‘‘لکھنےکے