کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 46
تو اس میں ہر مومن ازخود شامل ہوجاتا ہے۔چاہے کیسا ہی گناہ گار ہو۔بہرحال واقعات کربلا و حرہ کو یزیدکا کارنامہ کوئی نہیں کہتا۔البتہ اس کی مبالغہ آمیز تفصیلات سے ضرور انکار ہے جس کا زیادہ تر راوی ابو مخنف لوط بن یحییٰ ہے جو کذاب اور غالی شیعہ تھا(میزان)اور بھیانک روایتیں اسی کی ہیں اور جس حد تک یہ واقعات صحیح ہیں ان میں اگر فی الواقع یزید ملوث ہے تو اس کے "سیاہ کارنامے"شمار ہوں گے لیکن ان غلطیوں سے چاہے وہ کتنی بھی عظیم ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ مغفرت خداوندی کے امکان سے محروم۔ سوال نمبر3:اگر یزید کا قتل اہل بیت میں کوئی ہاتھ نہیں اور یہ سب کچھ ابن زیاد وابن سعد کی کارستانی ہے تو کیا یزید کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ بحکم((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ))(صحیح بخاری، النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا، حدیث:۵۲۰۰)اپنے گورنر سپہ سالا ر وغیرہ کا مؤاخذہ کرتا اور انہیں قتل اہل بیت کی سزا دیتا اور نہیں تو کیا قتل اہل بیت کے جرم میں وہ ابن زیاد بدنہاد کو معزول بھی نہیں کرسکتا تھا؟‘‘ جواب نمبر 3:یہ سوال بجا ہے، یزید کو فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے مؤاخذہ کرنا اور انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کردینا چاہیے تھا۔لیکن جس طرح ہر حکمران کی کچھ سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر بعض دفعہ انہیں اپنے ماتحت حکام کی بعض ایسی کاروائیوں سے بھی چشم پوشی کرنی پڑ جاتی ہے جنہیں وہ صریحا ً غلط سمجھتے ہیں۔اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسی سیاسی مجبوری ہو جس کو یزید نے زیادہ اہمیت دے دی ہو گو اسے قتل حسین رضی اللہ عنہ کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے تھی۔اسے بھی آپ اس کی ایک اور بہت بڑی غلطی شمارکرسکتے ہیں اور بس۔خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیجئے کہ ان کی خلافت کے مصالح نے انہیں نہ صرف قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے چشم پوشی پر مجبور کردیا بلکہ انہین بڑے بڑے اہم عہدے بھی تفویض کرنے پڑے۔حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ بھی کچھ کم المناک اور یہ جرم بھی کچھ عظیم جرم نہ تھا لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔یزید نے تو قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے عہدوں سے صرف برطرف ہی نہیں کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد قاتلوں کو بڑے بڑے عہدوں