کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 45
اس نے توبہ بھی نہ کی ہو ہاں مرتے دم تک مومن رہا(کافر نہ ہوا)تو اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے چاہے وہ عذاب دے، چاہے وہ بالکل معاف کردے اور نار جہنم کی اس کو ہوا تک نہ لگنے دے۔‘‘ اول تو اس بات کا ہی کوئی شخص ثبوت پیش نہیں کرسکتا کہ یزید نے ان جرائم پر اپنی زندگی میں توبہ نہیں کی، اور بغیر توبہ کیے ہی مرگیا۔بلکہ ۹۹ فیصد اسی بات کا امکان ہے کہ اس نے یقیناً توبہ کی ہوگی۔آخر وہ مسلمان اور نماز روزے کا پابند تھا۔اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ وہ بغیر توبہ ہی مرا تب بھی جب تک اس کے کفر و ارتداد کا ثبوت مہیا نہیں کردیا جاتا، اس کو امکان مغفرت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔دیکھ لیجئے! اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ کفر و شرک کے علاوہ جو بھی گناہ ہو اور اس کا مرتکب چاہیے بغیر توبہ کیے ہی مرگیا ہو تب بھی اس کا معاملہ اللہ کی مشیت پر ہے چاہے عذاب دے چاہے بخش دے۔ مدیر موصوف اس کو "ظالم اور فاسق وفاجر" تسلیم کرا کےمعلوم نہیں کیا چاہتے ہیں؟ اور ان کے ذہن میں کیا ہے؟ اس کو انہوں نے کھولا نہیں۔اگر اس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ ایسے شخص کی مغفرت ممکن نہیں تو ہم موصوف سے دلائل شرعی کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر صرف اس کا ظلم تسلیم کرانا مطلوب ہے تو اسے تسلیم کرلینے سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا ہے۔وہ کتنابھی گناہ گار ا ور’’ظالم و فاسق’‘ہو وہ بہرحال مسلمان تھا اور عین ممکن ہے کہ مرنے سے پہلے وہ تائب بھی ہوگیا ہو۔نہ بھی تائب ہوا تو امکان مغفرت بہرحال اس کے حق میں موجودہے۔ اور اگر مدیر موصوف کا مطلب اس سے یہ ہے کہ ایسے شخص کےلیےدعائے رحمت ومغفرت نہیں کرنی چاہیے تو یہ بات بھی صحیح نہیں، دعا تو ہوتی ہی گناہ گاروں کے لیے ہے اگر ہم کسی گناہ گار مسلمان کےلیے دعا نہ بھی کریں گے تب بھی ہماری عام دعاؤں میں وہ ضرور شامل ہوجائے گا۔جب ہم کہیں گے: ((اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات)) ’’اے اللہ تمام مومن و مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔‘‘