کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 44
اس مناسب مقام تفصیل سے واقعہ ٔ حرہ کی بنیادی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے نیز یہ کہ اس "شورش" کو اہل خیر وصلاح نے کس نظر سے دیکھا تھا؟ تاہم ان ایام حرہ میں،مبالغہ آمیز تفصیلات سے قطع نظر، جو غیر مستند ہی ہیں کیونکہ ان کا راوی ابو مخنف ہی ہے جو کذاب اور شیعہ ہے، یزید کی فوج نے حد سے تجاوز کرکے جو کاروائیاں کی ہیں۔ان پر علماء نکیر ہی کرتے آئے ہیں، انہیں مستحسن کسی نے بھی نہیں کہا ہے۔ واقعۂ کربلا کی بھی جو حقیقت ہے اس پر ہم مختصراً روشنی ڈال آئے ہیں۔اور امام غزالی وغیرہ کی تصریحات سے ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ اس سلسلے میں یزیدکو مطعون کرنا درست نہیں کیونکہ نہ اس نے ایسا کیا نہ ایسا کرنے کا حکم دیا، نہ اس کو پسند کیا۔ اگر کسی درجے میں سانحۂ کربلا اور واقعۂ حرہ کا ذمہ دار یزید ہی کو ٹھہرا لیا جائے اور اس بنا پر اس کو "فاسق و فاجر اور قاتل و ظالم" بھی سمجھ لیا جائے تب بھی یہ تمام جرائم کبائر ہی شمار ہوں گے اور کبائر کے ارتکاب سے کوئی مسلمان نہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ رحمت ومغفرت خداوندہی کے امکان سے محروم۔اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے تمام گناہ معاف کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ شرک کے علاوہ چاہوں گا تو دوسرے گناہ معاف کردوں گا۔ ﴿ إِنَّ اللّٰهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ ﴾[النساء:48] پھر یزید کی مغفرت کےلیے تو بالخصوص بشارت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم بھی موجود ہے اور آیت قرآنی اور حدیث نبوی کے علاوہ اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ ((وما کان من السیئآت دون الشرک والکفر ولم یتب عنھا صاحبہا حتی مات مؤمناً فإنہ فی مشئۃ اللّٰه إن شآء عذبہ وإن شآء عفا عنہ ولم یعذبہ بالنار اصلاً)) یعنی’’شرک وکفر کے علاوہ چاہے جو بھی گناہ آدمی سے سرزد ہوئے ہوں اور ان سے