کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 43
رحمہ اللہ نے فرمایا’’اللہ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، وہ تو فرماتا ہے إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ’’گواہی انہی لوگوں کی معتبر ہے جو اس بات کا ذاتی علم ہو" جاؤ! میں کسی بات میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا’‘وہ کہنے لگے’’شاید آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہو کہ یہ معاملہ آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں رہے۔اگر ایسا ہے تو قیادت ہم آپ کے سپرد کیے دیتے ہیں’‘برادر حسین رضی اللہ عنہ نے کہا’’تم جس چیز پر قتال وجدال کررہے ہو، میں سرے سے اس کو جائز ہی نہیں سمجھتا، مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟’‘وہ کہنے لگے’’آپ اس سے پہلے اپنے والد کے ساتھ مل کر جو جنگ کرچکے ہیں‘‘انہوں نے فرمایا’’تم پہلے میرے باپ جیسا آدمی اور انہوں نے جن سے جنگ کی ان جیسے افراد تو لا کر دکھاؤ۔اس کے بعد میں بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کرلوں گا’‘وہ کہنے لگے،آپ اپنے صاحبزادگان ابو القاسم اور قاسم ہی کو ہمارے حوالے کردیں،ا نہوں نے فرمایا: میں ان کو اگر اس طرح کا حکم دوں تو میں خود نہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک ہوجاؤں؟ وہ کہنے لگے، اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کر لوگوں کو آمادہ ٔ قتل کردیں انہوں نے فرمایا’’سبحان اللہ! جس کو میں خود ناپسند کرتا ہوں اور اس سے مجتنب ہوں۔لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملے میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں، بدخواہ ہوں گا۔‘‘وہ کہنے لگے’’ہم پھر آپ کو مجبور کریں گے’‘انہوں نے کہا’’میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اور مخلوق کی رضا کی خاطر خالق کو ناراض کرو۔’‘(البدایۃ والنہایۃ ۲۳۶/۸) مگر ان مساعی ٔ خیر و صلاح کے علی الرغم شورش نے انتہائی نازک صورت اختیار کرلی۔یزید کو خبر پہنچی تو شورش کو فرو کرنے کے لیے فوج بھیج دی اور اس کو ہدایت کی کہ شورش کرنے والوں کو تین دن کی مہلت دینا، اگر اس دوران میں وہ اپنا طرز عمل درست کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تمہیں کاروائی کی جازت ہے فوج نے اپنے خلیفہ کے حکم کے مطابق عمل کیا لیکن اہل مدینہ نے اس مہلت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ جنگ کرنے کےلیے مقابلے پر آگئے۔