کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 41
میں آتا ہے کہ جب ان کو اہل مدینہ کے طرز عمل کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ یعنی بال بچوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ((إنی سمعت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول ینصب لکل غادر لواء یوم القیامۃ وإنا قد بایعنا ھٰذا الرجل علی بیع اللّٰه ورسولہ وإنی لا أعلم غدراً أعظم من أن یبایع رجل علی بیع اللّٰه ورسولہ ثم ینصب لہ القتال وإنی لا أعلم أحداً منکم خلعہ ولا تابع فی ھٰذا إلا کانت الفصیل بینی وبینہ))(صحیح البخاری، الفتن، باب إذا قال عند قوم شیئاً۔۔۔، ح:۷۱۱۱) یعنی’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر بدعہدی(غدر)کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا(علامتی نشان)نصب کردیا جائے گا۔ہم نے اس شخص(یزید)سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے، میری نظر میں اس سے زیادہ بدعہدی اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے پھر آدمی اسی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔یاد رکھو تم میں سے کسی کے متعلق بھی اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے یزید کی بیعت توڑ دی ہے۔یا وہ بدعہدی کرنے والوں کے پیچھے لگ گیا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہ رہے گا۔‘‘ اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین نے بھی یزیدکی بیعت توڑنے سے گریز کیا۔(البدایہ والنہایہ، ۲۱۸/۸)بلکہ خاندان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی اس موقعے پر نہ بیعت توڑی نہ اس شورش میں کسی قسم کا حصہ لیا۔چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ((کان عبداللّٰه بن عمر الخطاب وجماعات أہل بیت النبوۃ ممن لم ینقض العہد ولا بایع أحداً بعد بیعتہ لیزید۔۔۔لم یخرج أحد من آل أبی طالب ولا من بنی عبدالمطلب أیام الحرۃ))(البدایۃ والنہایۃ، ص: ۲۳۵/۷)