کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 39
چنانچہ تاریخ کی ایک متداول کتاب تاریخ الخلفاء میں علامہ سیوطی لکھتے ہیں: ((فلما رھقہ السلاح عرض علیھم الاستسلام والرجوع المضی إلی یرید فیضع یدہ فی یدہ))(تاریخ الخلفاء،ص:۱۳۸، طبع مصر) ’’جب کوئی چارہ ٔ کاری باقی نہیں رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں صلح کی، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزیدکے پاس جانے کی پیش کش کی۔‘‘ اس قسم کے الفاظ اصابہ(حافظ ابن حجر)، تہذیب ابن عساکر، تاریخ طبری اور البدایہ والنہایہ وغیرہ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ اس بحث سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حق اور صحیح موقف کس کا تھا؟ یزیدکے طلب بیعت کے صحیح ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ گویا نعوذ باللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ناروا کا اقدام بھی صحیح تھا۔اس کا اہل سنت میں سے کوئی بھی قائل نہیں نہ ہم ہی اس کو درست سمجھتے ہیں اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موقف کی بحث میں مراد ہے وہ موقف جو یزید کی طرف سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مطالبۂ بیعت سے متعلق ہے۔ البتہ رہی یہ بات کہ یزید مطالبۂ بیعت میں حق بجانب تھا یا نہیں؟ تو یہ خود مدیر موصوف غور فرما لیں جب کہ یزید کو ساری اسلامی قلمرو میں بشمول صحابہ ٔ کرام واجب الاطاعت حاکم تسلیم کر لیا گیا تھا۔ سوال نمبر 2:واقعۂ کربلا سے قبل باختلاف روایات، یزید جو کچھ بھی تھا مگر واقعۂ کربلا و واقعۂ حرہ کے بعد بھی کیا وہ ظالم وقاتل اور فاسق وفاجر قرار نہیں پاتا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اتنے عظیم ظالمانہ واقعات کا یزید پر کوئی بوجھ نہیں؟ یہ واقعات اس کا کارنامہ ہیں یا سیاہ نامہ؟ جواب نمبر 2: واقعۂ حرہ کی حقیقت:سانحۂ کربلا۶۱ھ میں رونما ہوا۔اس وقت صحابۂ کرام کی بھی ایک معقول تعداد موجود تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان بھی تھا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد ہی ڈھائی درجن سے زیادہ تھی۔اسی