کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 38
من الناس))(الفخری، ص:۸۵، طبع مصر ۱۹۲۷ء) شاید ایسے ہی مبہم طرز عمل کی وجہ سے یزید کے غالی حمایتیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جب اس حدیث کا مصداق قرار دینے کی کوشش کی۔ ((فمن أراد أن یفرق أمر ھٰذہ الأمۃ وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان)) (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وھو مجتمع، ح:۱۸۵۲) تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی سخت تردید کرتے ہوئے فرمایا: ((وأھل السنۃ یردون غلو ھؤلآء ویقولون إن الحسین قتل مظلوماً شہیداً والذین قتلوہ کانوا ظالمین))(منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲) ’’اہل سنت والجماعت اس غلو کو مسترد کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ظلماً شہید کیا گیا،اور ان کے قاتل ظالم تھے۔‘‘ پھر لکھا:’’اس لیے وہ حدیث مذکور کا مصداق نہیں ہوسکتے کہ آپ(آخراً)جماعت مسلمین سے الگ نہیں رہے وہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں شامل تھے اور وہ یوں کہ انہوں نے(کوفی فوج سے)صاف فرمایا تھا کہ(تم لوگ)مجھے واپس اپنے شہر لوٹ جانے دو یا سرحد کی کسی چوکی پر چلے جانے دو یا(پھر)یہ کہ میں یزید کے پاس براہ راست چلا جاتا ہوں۔’‘(منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲) حضرت حسین پر الزام مذکور کی تردید میں’’منہاج السنہ’‘کے ایک دوسرے مقام میں ہے: ((الحسین رضی اللّٰه عنہ لم یقتل إلا مظلوماً شہیداً تارکاً لطلب الإمارۃ طالباً للرجوع إما إلی بلدۃ أو إلی الثغر أو إلی المتولی علی الناس یرید))(منہاج السنۃ: ۲۴۳/۲) یزید کے پاس جانے سے حضرت کی غرض کیا تھی؟ تاریخی روایتوں نے یہ بھی بتادیا ہے۔